سید علی گیلانی (چیئرمین حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر) ..............
اکتوبر 1933ء میں علامہ مرحوم نے افغانستان کا دورہ کیا۔ بہتر یہ ہے کہ افغانستان کی سیاحت کے دوران میں جو کچھ انکے ارشادات‘ جوابات‘ احساسات اور فرمودات مثنوی کے صحفات میں زینت پا چکے ہین‘ انکے جستہ جستہ حصے ہدیہ قارئین کئے جائیں۔
علامہ مرحوم کا کلام خاص طور فارسی زبان میں بحر بے کراں ہے۔ انکا احاطہ کرنا مجھ جیسے ناتواں شخص کیلئے ناممکنات میں سے ہے۔ جیسا کہ میں نے ابتدائی سطور میں گزارش کی ہے کہ میری صرف یہ کوشش ہے کہ اقبال کی اس بنیادی صفت اور خصوصیت کو امکان حد تک بیان کروں کہ وہ فلسفی‘ بار ایٹ لا اور مغربی فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے شناور ہونے کے ساتھ ساتھ کس طرح روح دین کے شناسا اور واقف حال تھے؟ کس طرح انہوں نے اپنے کلام میں اسلام کی اصل روح کو اجاگر کرنے اور ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے؟ انکے دل میں اسلام اور ملت کیلئے کتنا درد‘ کتنا اضطراب اور کتنی بے چینی تھی؟ اس کا اندازہ ان کے فارسی کلام کے مطالعے سے ہوتا ہے۔
وہ ملتِ مرحومہ کے تابناک اور شاندار ماضی سے واقف تھے۔ ان کی نظروں میں رسالت مآب ؐ کا دورِ سعادت تھا۔ انکی نگاہوں میں قرون اولیٰ کے مسلمان تھے۔ پھر ان کی تربیت میں تشکیل پذیر وہ کردار اور سیرتیں تھیں جنہوں نے خلاف راشدہ کے مثالی دور کی نقش بندی کی تھی اور ہمہ جہت انقلاب کی داغ بیل ڈال کر تا صبح قیامت ایک بے مثال معاشرے کی تشکیل کر کے بنی نوع انسان کی آرزوؤں اور تمناؤں کو مرکز اور محور بنایا تھا۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ مثالی دور دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ اقبال کی تمنا اور آرزو صرف یہ تھی کہ ملتِ مرحومہ اُسی مثالی دور کی یاد تازہ کر کے اور اسی کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنا منصبی فریضہ انجام دینے کیلئے سرگرم عمل ہو جائے۔ وہ ملت کی موجودہ حالت دیکھ کر ماہی بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ اسکے ذہنی اور عملی انحطاط اور زوال کو دور کرنے کیلئے آتش زیرپا تھے۔ وہ ملت کی اس صورتحال کی تشخیص کر چکے تھے اور برملا کہتے تھے کہ ملت‘ قرآن اور سنت مطہرہ سے دور اور بے گانہ ہو چکی ہے اور یہی اسکے امراض کی جڑ اور کُنہ ہے۔ انہوں نے ملت کے موجودہ انتشار اور افتراق کی تصویر کشی کر کے اسکے اعتماد اور اتفاق کیلئے دردمندانہ آواز بلند کی تھی :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
تُرک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
خلافتِ علیٰ منہاج نبوت کا قیام نہ صرف ملتِ مرحومہ کی بیماریوں کا علاج ہے بلکہ یہ ملت اسلامیہ کی ذمہ داری بھی ہے۔ آج کی دنیا میں انسان جس بے چینی اور اضطراب اور نوع بنوع مسائل سے دوچار ہے۔ انسان کا خون پانی کی طرح ارزاں ہے اور سارے ازم انسان کو امن و آشتی اور خوشحالی و فراغت دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ جب تک خلافت راشدہ کے صالح نظام کی بنیادوں پر وحدتِ الٰہ اور وحدتِ آدم کا تصور عام کر کے عدل و انصاف کا نظام قائم نہ ہو‘ انسان موجودہ خوں ریزی اور استحصال سے نجات نہیں پا سکتا۔ افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی علامہ محمد اقبال‘ نادر شاہ مرحوم کی تُربت پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی عقیدت‘ محبت اور ان کے اوصاف حمیدہ کی تعریف کرتے ہیں۔
نادر شاہ یقیناً اسم بامسمیٰ ایک نادر اور درویش صفت سربراہ مملکت تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے پایاں ان کی تربت پاک پر ہو۔ انکی تدابیر اور حکمت عملی کے نتیجے میں ملت مرحومہ کے اجتماعی وجود میں استحکام اور استقلال پیدا ہوا تھا۔ انکی شمشیر بُرّان دین کی حفاظت کیلئے تھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک اس حقیقت کا واضح ادراک اور اعتراف تھا کہ مسلمان کی تلوار‘ ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کیلئے نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کے احیا کیلئے اور اسکے دئیے ہوئے عادلانہ نظام کو قائم کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے کیونکہ پوری انسانی برادری کیلئے اس دین مبین میں فلاح و بہبود اور امن و آشتی ہے۔
نادر شاہ مرحوم‘ حضرت ابوذر غفاریؓ کی طرح نماز میں سوز و گزار کا مجسمہ ہوتے تھے اور جب دشمن کے ساتھ مقابلہ ہوتا تھا اور کوئی معرکہ آرائی ہوتی تھی‘ انکی شمشیر کی ضرب اور کاٹ پتھروں کو بھی شق کرتی تھی۔ افغانستان کے اس بادشاہ کے زمانے میں انکی حکمرانی کے انداز اتنے حسین و جمیل تھے کہ عہد صدیقف کے انداز حکمرانی کی یادیں تازہ ہو جاتی تھیں۔ یہ علامہ اقبال کی تمناؤں اور آرزوؤں کی عکاسی ہے۔ انکے جلال اور دبدبے سے عہد فاروقی کی یادیں تازہ ہو گئیں۔
جس طرح گل لالہ کے سینے میں اس کا سایہ داغ اسکی شناخت اور پہچان ہوتی ہے‘ اسی طرح نادر شاہ کے دل میں دین مبین کا غم اور درد تھا۔ مشرق کی تاریک رات میں انکے وجود کی مثال روشن چراغ تھی۔ اس کی نگاہ میں ارباب ذوق کی مستی اور اسکی روح کا جوہر‘ سراپا جذب و شوق ہے۔ شمشیر خسروی اور درویشانہ نگاہ‘ یہ دونوں موتی لاالٰہ کے سمندر سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ گویا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں انہی کے اثر اور عمل آوری کے نتیجے میں اقتدار پر براجمان بادشاہ‘ درویش صفت متقی‘ خدا ترس‘ آخرت پسند اور انسان دوست ہوتے ہیں۔ فقر اور شاہی کا ایک ساتھ ہونا‘ یہ صرف رسول کریمؐ کی سیرت پاک اور اسوہ حسنہ کی دین اور کرشمہ سازی ہے۔ یہ برکتیں‘ رحمتیں اور سیرت و کردار کی عظمتیں صرف رسول رحمت کی ذات مبارک کی جلوہ سامانیاں ہیں۔
یہ دونوں قوتیں مومن کے کردار کی نمایاں صفات اور خصوصیات ہیں۔ دنیوی اقتدار و قوت‘ طاقت اور شان و شوکت انکی ذات‘ خاندان‘ قوم یا خدا بے زار افراد کیلئے نہیں بلکہ مجموعی طور انسان کی فلاح اور کامرانی و کامیابی کیلئے ہی حکومت کی یہ طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ مومن کی زندگی میں قیام و سجود‘ زندگی کے دو پرتو ہوتے ہیں۔ حکومت کا اقتدار‘ انکے قیام اور سجود ان کیلئے بندگی کا مظہر اور اعلان ہوتا ہے۔ فقر‘ سوز‘ درد‘ داغ اور آرزو ہے۔ فقر کو رگ و ریشہ ایں اتارنا‘ داخل کرنا‘ آبرو مندی ہے۔ نادر شاہ نے فقر کو اپنے رگ و ریشے اور خون میں داخل کر دیا تھا۔ یہی فقر اسکی زندگی کا شعار اور نشان بنا تھا۔ اس مرد شہید‘ افغانستان کے درویش صفت بادشاہ نادر کے اس انداز فقر پر صد آفرین اور ہار بار تحسین! اے باد صبح کے تیزگام مسافر! نادر شاہ کے مرقد پر نرم رو اور سبک سر ہو کر طواف کر لے۔ وہ اپنے مرقد میں محو استراحت ہے‘ اس لئے باد صبا! اپنے قدم آہستہ آہستہ رکھ۔ تیری آمد سے جو غنچے کھل اٹھتے ہیں‘ انکی گرہیں آہستگی سے کھول۔ میری طرف سے عقیدت کے یہ پھول نچھاور کرنے کے بعد اسکی طرف سے میرے لئے فرمان صادر ہوا۔ اس فرمان شاہی نے میرے خاکی وجود میں تازہ روح اور زندگی کی لہر دوڑا دی۔ (جاری ہے)
٭۔ فرمانِ شہ نادر
اے مسافر! تیری درد بھری اور پرتپش آواز سے میں جل اٹھا ہوں۔ وہ قوم کتنی خوش بخش‘ خوش نصیب اور لائق صد آفرین ہے جو تیری زندگی کے راز‘ تیرے دل کی دھڑکن‘ تیری تمنا‘ تیری آرزو اور تیرے مقاصد و اہداف سے واقف اور جانکاری رکھتی ہو۔
اے میرے عقیدت مند! تیرے اس غم دین و ملت سے ہماری قوم پوری طرح آشنا اور واقف راز ہے۔ ہماری ملت اور افغان قوم جانتی ہے کہ درد و اخلاص سے پُر یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ ہمارے آغوش سحاب میں بجلی کی طرح کڑکنے والے تیرے نور اور تیری پرسوز آواز سے پورا مشرق روشن اور تابند ہے۔
ایک طویل عرصے تک ہمارے کوہساروں میں درخشندگی اور تابناکی کا مظاہرہ کرے۔ دین اسلام اور رسول رحمتؐ کے ساتھ ہمارا ایمان‘ محبت اور عشق میں وہی تابندگی‘ استحکام اور استقلال پیدا کر دے‘ جو مطلوب و مقصود ہے۔
تم کب تک بندشوں اور حصاروں میں بندھے اور گھرے رہو گے۔ تیرا پیغام کلیمی ہے۔ تجھے سینا کی وادیوں کی تلاش میں سرگرم سفر رہنا چاہیے۔
اس نادر شاہی فرمان کے بعد اقبال افغانستان میں اپنی سیاحت کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’میں نے افغانستان میں باغ‘ مرعزار اور دشت و صحرا چھان مارے‘ باد صبا کی طرح میں نے افغانستان کے پہارڑ اور ٹیلے دیکھ بھال لئے۔ درہ خیبر مردان حق آشنا سے نامانوس نہیں ہے۔ اس کے دل میں تو ہزاروں افسانے‘ واقعات اور تاریخی شواہد پوشیدہ ہیں۔ اس راہ کے نشیب و فراز اور پیچ و خم میں تو انسان کی نظر بھی گم ہو جاتی ہے۔ افغانستان کے کہساروں کے دامن میں آپ سبزہ تلاش نہ کریں۔ اس کے ضمیر میں رنگ و بو کی نمود اور اٹھان نہیں ہے۔ اس سرزمین کے چکور‘ شاہین صفت اور شاہین مزاج ہیں۔ اس سرزمین غیرت مند کے ہرن‘ شیروں سے بھی خراج وصول کرتے ہیں۔‘‘
ان اشعار میں افغانیوں کی غیرت مندی‘ حوصلہ‘ ہمت‘ جوان مردی اور بہادری کی تعریف کی گئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں نے برطانوی سامراج‘ روسی سامراج اور اشتراکی مزاج اور فلسفہ کو شکست دے دی۔ آج اقبال کے کلام بلاغت نظام کے حوالے سے افغان کا تذکرہ آ رہا ہے‘ تو افغانستان کے غیر مند عوام آج امریکی اور اس کے اتحادیوں کے ظلم و جبر‘ انسان کشی اور بدترین قسم کی سامراجی چالو اور فریب کاریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ نیٹو کی فوجیں افغانیوں کی ہمت اور حوصلہ مندی کی بزبان حال معترف ہیں۔ بہت جلد وہ روسی سامراج کی طرح وہاں سے نکل کھڑی ہوں گی اور افغان قوم اپنا دینی اور ملی تشخص پھر بحال کرنے میں کامیاب و کامران ہو گی۔ انشاء اللہ۔ طالبان اور القاعدہ کے نام محض ایک بہانہ ہے۔ امریکی اور ان کے اتحادی سامراج کے قمابلے میں براہ راست افغان عوام معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔ ان کے معصوم بچے‘ خواتین اور عام شہری‘ سامراجی قونوں کی بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں …ع
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر
اکتوبر 1933ء میں علامہ مرحوم نے افغانستان کا دورہ کیا۔ بہتر یہ ہے کہ افغانستان کی سیاحت کے دوران میں جو کچھ انکے ارشادات‘ جوابات‘ احساسات اور فرمودات مثنوی کے صحفات میں زینت پا چکے ہین‘ انکے جستہ جستہ حصے ہدیہ قارئین کئے جائیں۔
علامہ مرحوم کا کلام خاص طور فارسی زبان میں بحر بے کراں ہے۔ انکا احاطہ کرنا مجھ جیسے ناتواں شخص کیلئے ناممکنات میں سے ہے۔ جیسا کہ میں نے ابتدائی سطور میں گزارش کی ہے کہ میری صرف یہ کوشش ہے کہ اقبال کی اس بنیادی صفت اور خصوصیت کو امکان حد تک بیان کروں کہ وہ فلسفی‘ بار ایٹ لا اور مغربی فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے شناور ہونے کے ساتھ ساتھ کس طرح روح دین کے شناسا اور واقف حال تھے؟ کس طرح انہوں نے اپنے کلام میں اسلام کی اصل روح کو اجاگر کرنے اور ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے؟ انکے دل میں اسلام اور ملت کیلئے کتنا درد‘ کتنا اضطراب اور کتنی بے چینی تھی؟ اس کا اندازہ ان کے فارسی کلام کے مطالعے سے ہوتا ہے۔
وہ ملتِ مرحومہ کے تابناک اور شاندار ماضی سے واقف تھے۔ ان کی نظروں میں رسالت مآب ؐ کا دورِ سعادت تھا۔ انکی نگاہوں میں قرون اولیٰ کے مسلمان تھے۔ پھر ان کی تربیت میں تشکیل پذیر وہ کردار اور سیرتیں تھیں جنہوں نے خلاف راشدہ کے مثالی دور کی نقش بندی کی تھی اور ہمہ جہت انقلاب کی داغ بیل ڈال کر تا صبح قیامت ایک بے مثال معاشرے کی تشکیل کر کے بنی نوع انسان کی آرزوؤں اور تمناؤں کو مرکز اور محور بنایا تھا۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ مثالی دور دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ اقبال کی تمنا اور آرزو صرف یہ تھی کہ ملتِ مرحومہ اُسی مثالی دور کی یاد تازہ کر کے اور اسی کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنا منصبی فریضہ انجام دینے کیلئے سرگرم عمل ہو جائے۔ وہ ملت کی موجودہ حالت دیکھ کر ماہی بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ اسکے ذہنی اور عملی انحطاط اور زوال کو دور کرنے کیلئے آتش زیرپا تھے۔ وہ ملت کی اس صورتحال کی تشخیص کر چکے تھے اور برملا کہتے تھے کہ ملت‘ قرآن اور سنت مطہرہ سے دور اور بے گانہ ہو چکی ہے اور یہی اسکے امراض کی جڑ اور کُنہ ہے۔ انہوں نے ملت کے موجودہ انتشار اور افتراق کی تصویر کشی کر کے اسکے اعتماد اور اتفاق کیلئے دردمندانہ آواز بلند کی تھی :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
تُرک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
خلافتِ علیٰ منہاج نبوت کا قیام نہ صرف ملتِ مرحومہ کی بیماریوں کا علاج ہے بلکہ یہ ملت اسلامیہ کی ذمہ داری بھی ہے۔ آج کی دنیا میں انسان جس بے چینی اور اضطراب اور نوع بنوع مسائل سے دوچار ہے۔ انسان کا خون پانی کی طرح ارزاں ہے اور سارے ازم انسان کو امن و آشتی اور خوشحالی و فراغت دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ جب تک خلافت راشدہ کے صالح نظام کی بنیادوں پر وحدتِ الٰہ اور وحدتِ آدم کا تصور عام کر کے عدل و انصاف کا نظام قائم نہ ہو‘ انسان موجودہ خوں ریزی اور استحصال سے نجات نہیں پا سکتا۔ افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی علامہ محمد اقبال‘ نادر شاہ مرحوم کی تُربت پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی عقیدت‘ محبت اور ان کے اوصاف حمیدہ کی تعریف کرتے ہیں۔
نادر شاہ یقیناً اسم بامسمیٰ ایک نادر اور درویش صفت سربراہ مملکت تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے پایاں ان کی تربت پاک پر ہو۔ انکی تدابیر اور حکمت عملی کے نتیجے میں ملت مرحومہ کے اجتماعی وجود میں استحکام اور استقلال پیدا ہوا تھا۔ انکی شمشیر بُرّان دین کی حفاظت کیلئے تھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک اس حقیقت کا واضح ادراک اور اعتراف تھا کہ مسلمان کی تلوار‘ ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کیلئے نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کے احیا کیلئے اور اسکے دئیے ہوئے عادلانہ نظام کو قائم کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے کیونکہ پوری انسانی برادری کیلئے اس دین مبین میں فلاح و بہبود اور امن و آشتی ہے۔
نادر شاہ مرحوم‘ حضرت ابوذر غفاریؓ کی طرح نماز میں سوز و گزار کا مجسمہ ہوتے تھے اور جب دشمن کے ساتھ مقابلہ ہوتا تھا اور کوئی معرکہ آرائی ہوتی تھی‘ انکی شمشیر کی ضرب اور کاٹ پتھروں کو بھی شق کرتی تھی۔ افغانستان کے اس بادشاہ کے زمانے میں انکی حکمرانی کے انداز اتنے حسین و جمیل تھے کہ عہد صدیقف کے انداز حکمرانی کی یادیں تازہ ہو جاتی تھیں۔ یہ علامہ اقبال کی تمناؤں اور آرزوؤں کی عکاسی ہے۔ انکے جلال اور دبدبے سے عہد فاروقی کی یادیں تازہ ہو گئیں۔
جس طرح گل لالہ کے سینے میں اس کا سایہ داغ اسکی شناخت اور پہچان ہوتی ہے‘ اسی طرح نادر شاہ کے دل میں دین مبین کا غم اور درد تھا۔ مشرق کی تاریک رات میں انکے وجود کی مثال روشن چراغ تھی۔ اس کی نگاہ میں ارباب ذوق کی مستی اور اسکی روح کا جوہر‘ سراپا جذب و شوق ہے۔ شمشیر خسروی اور درویشانہ نگاہ‘ یہ دونوں موتی لاالٰہ کے سمندر سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ گویا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں انہی کے اثر اور عمل آوری کے نتیجے میں اقتدار پر براجمان بادشاہ‘ درویش صفت متقی‘ خدا ترس‘ آخرت پسند اور انسان دوست ہوتے ہیں۔ فقر اور شاہی کا ایک ساتھ ہونا‘ یہ صرف رسول کریمؐ کی سیرت پاک اور اسوہ حسنہ کی دین اور کرشمہ سازی ہے۔ یہ برکتیں‘ رحمتیں اور سیرت و کردار کی عظمتیں صرف رسول رحمت کی ذات مبارک کی جلوہ سامانیاں ہیں۔
یہ دونوں قوتیں مومن کے کردار کی نمایاں صفات اور خصوصیات ہیں۔ دنیوی اقتدار و قوت‘ طاقت اور شان و شوکت انکی ذات‘ خاندان‘ قوم یا خدا بے زار افراد کیلئے نہیں بلکہ مجموعی طور انسان کی فلاح اور کامرانی و کامیابی کیلئے ہی حکومت کی یہ طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ مومن کی زندگی میں قیام و سجود‘ زندگی کے دو پرتو ہوتے ہیں۔ حکومت کا اقتدار‘ انکے قیام اور سجود ان کیلئے بندگی کا مظہر اور اعلان ہوتا ہے۔ فقر‘ سوز‘ درد‘ داغ اور آرزو ہے۔ فقر کو رگ و ریشہ ایں اتارنا‘ داخل کرنا‘ آبرو مندی ہے۔ نادر شاہ نے فقر کو اپنے رگ و ریشے اور خون میں داخل کر دیا تھا۔ یہی فقر اسکی زندگی کا شعار اور نشان بنا تھا۔ اس مرد شہید‘ افغانستان کے درویش صفت بادشاہ نادر کے اس انداز فقر پر صد آفرین اور ہار بار تحسین! اے باد صبح کے تیزگام مسافر! نادر شاہ کے مرقد پر نرم رو اور سبک سر ہو کر طواف کر لے۔ وہ اپنے مرقد میں محو استراحت ہے‘ اس لئے باد صبا! اپنے قدم آہستہ آہستہ رکھ۔ تیری آمد سے جو غنچے کھل اٹھتے ہیں‘ انکی گرہیں آہستگی سے کھول۔ میری طرف سے عقیدت کے یہ پھول نچھاور کرنے کے بعد اسکی طرف سے میرے لئے فرمان صادر ہوا۔ اس فرمان شاہی نے میرے خاکی وجود میں تازہ روح اور زندگی کی لہر دوڑا دی۔ (جاری ہے)
٭۔ فرمانِ شہ نادر
اے مسافر! تیری درد بھری اور پرتپش آواز سے میں جل اٹھا ہوں۔ وہ قوم کتنی خوش بخش‘ خوش نصیب اور لائق صد آفرین ہے جو تیری زندگی کے راز‘ تیرے دل کی دھڑکن‘ تیری تمنا‘ تیری آرزو اور تیرے مقاصد و اہداف سے واقف اور جانکاری رکھتی ہو۔
اے میرے عقیدت مند! تیرے اس غم دین و ملت سے ہماری قوم پوری طرح آشنا اور واقف راز ہے۔ ہماری ملت اور افغان قوم جانتی ہے کہ درد و اخلاص سے پُر یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ ہمارے آغوش سحاب میں بجلی کی طرح کڑکنے والے تیرے نور اور تیری پرسوز آواز سے پورا مشرق روشن اور تابند ہے۔
ایک طویل عرصے تک ہمارے کوہساروں میں درخشندگی اور تابناکی کا مظاہرہ کرے۔ دین اسلام اور رسول رحمتؐ کے ساتھ ہمارا ایمان‘ محبت اور عشق میں وہی تابندگی‘ استحکام اور استقلال پیدا کر دے‘ جو مطلوب و مقصود ہے۔
تم کب تک بندشوں اور حصاروں میں بندھے اور گھرے رہو گے۔ تیرا پیغام کلیمی ہے۔ تجھے سینا کی وادیوں کی تلاش میں سرگرم سفر رہنا چاہیے۔
اس نادر شاہی فرمان کے بعد اقبال افغانستان میں اپنی سیاحت کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’میں نے افغانستان میں باغ‘ مرعزار اور دشت و صحرا چھان مارے‘ باد صبا کی طرح میں نے افغانستان کے پہارڑ اور ٹیلے دیکھ بھال لئے۔ درہ خیبر مردان حق آشنا سے نامانوس نہیں ہے۔ اس کے دل میں تو ہزاروں افسانے‘ واقعات اور تاریخی شواہد پوشیدہ ہیں۔ اس راہ کے نشیب و فراز اور پیچ و خم میں تو انسان کی نظر بھی گم ہو جاتی ہے۔ افغانستان کے کہساروں کے دامن میں آپ سبزہ تلاش نہ کریں۔ اس کے ضمیر میں رنگ و بو کی نمود اور اٹھان نہیں ہے۔ اس سرزمین کے چکور‘ شاہین صفت اور شاہین مزاج ہیں۔ اس سرزمین غیرت مند کے ہرن‘ شیروں سے بھی خراج وصول کرتے ہیں۔‘‘
ان اشعار میں افغانیوں کی غیرت مندی‘ حوصلہ‘ ہمت‘ جوان مردی اور بہادری کی تعریف کی گئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں نے برطانوی سامراج‘ روسی سامراج اور اشتراکی مزاج اور فلسفہ کو شکست دے دی۔ آج اقبال کے کلام بلاغت نظام کے حوالے سے افغان کا تذکرہ آ رہا ہے‘ تو افغانستان کے غیر مند عوام آج امریکی اور اس کے اتحادیوں کے ظلم و جبر‘ انسان کشی اور بدترین قسم کی سامراجی چالو اور فریب کاریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ نیٹو کی فوجیں افغانیوں کی ہمت اور حوصلہ مندی کی بزبان حال معترف ہیں۔ بہت جلد وہ روسی سامراج کی طرح وہاں سے نکل کھڑی ہوں گی اور افغان قوم اپنا دینی اور ملی تشخص پھر بحال کرنے میں کامیاب و کامران ہو گی۔ انشاء اللہ۔ طالبان اور القاعدہ کے نام محض ایک بہانہ ہے۔ امریکی اور ان کے اتحادی سامراج کے قمابلے میں براہ راست افغان عوام معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔ ان کے معصوم بچے‘ خواتین اور عام شہری‘ سامراجی قونوں کی بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں …ع
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر