اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا

Apr 21, 2010

سفیر یاؤ جنگ
رفیق غوری ۔۔۔
بھارتی انتہا پسند بھی اس سلسلہ میں کبھی خوش دلانہ اور کبھی ناراض کر دینے والے بیانات دیتے ہیں شاید ان کا خیال یہ ہے کہ کرکٹ ڈپلومیسی کے بعد آج ٹینس ڈپلومیسی کے ذریعے ہم پاکستانیوں کو اپنی اصل سے ہٹا سکیں گے مگر ایسے لوگوں کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ ”یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے“بھارتی اندر سے جتنے لبرل ہیں ان سے ہم پوری طرح آگاہ ہیں۔ آنجہانی اندرا گاندھی کی فیروز گاندھی سے شادی تو ابھی کل کی بات ہے اس سے پہلے بھی تو وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی رچالی تھی پھر جو کچھ ہوا وہ اس تاریخ کا حصہ ہے جو جغرافیے کی تاریخ میں رکاوٹ نہ بن سکا تھا۔ اس طرح کی کئی شادیاں کئی خانہ آبادیاں یاد آ رہی ہیں مگر مسلمانوں کے ازلی دشمن ہماری بربادی نہ کر سکے تھے تاریخ میں ہی ہے کہ جب برصغیر پاک و ہند میں مغلوں کی حکمرانی تھی تو سکھوں نے تب کے مسلمان نوجوان بادشاہوں کو داماد بنانا قبول کر لیا تھا مگر مسلم اور غیر مسلم کا فاصلہ کبھی کم نہ ہوا وجہ اس کی دو قومی نظریہ کا ہمارے ذہنوں میں راسخ ہونا ہے پچھلے دنوں ہی کافی گلو کاروں‘ سیاستکاروں اور فنکاروں نے شادیاں رچائیں یہ کامیاب ہوئیں یا ناکام وہ الگ مضمون ہے! مگر اہل بھارت پھر بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔باضابطہ طور پر کرکٹ ڈپلومیسی ہمارے ممدوح جنرل ضیاءالحق کے دور میں شروع ہوئی تھی اور پھر جنرل صاحب باضابطہ دعوت نہ ہونے کے باوجود بھارت میں کرکٹ دیکھنے چلے گئے تھے تب کے بھارتی وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی نے دورے کے آخر میں جب جنرل ضیاءالحق کو ائرپورٹ پر خدا حافظ کہا تو شاید کچھ لوگوں کے علم میں نہ ہو ہم بتا دیتے ہیں کہ جنرل ضیاءالحق نے بھارت ہی کے ہوائی اڈے پر راجیو گاندھی کو ایک طرف کر کے اچانک کہہ دیا تھا کہ ”بھارت کے پاس پانچ ایٹم بم ہیں جبکہ پاکستان کے پاس اس سے زیادہ ہیں“ اور پھر بھارت کا وزیراعظم یہ جملہ سن کر بھی پریشان ہو گیا تھا کہ دہلی بہت خوبصورت ہے مگر لاہور تو اس سے بھی زیادہ اہم ہے حسین ہے‘ خوبصورت ہے نتیجتاً بھارت نے نہ صرف سرحدوں سے فوج کو واپس بلوا لیا تھا بلکہ جنگی مشقوں تک کا پروگرام ملتوی کر دیا تھا اب بھی جب بھارت ہمیں پانی کی بندش اور پراپیگنڈے کے ذریعے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے کرکٹ ڈپلومیسی کے بعد اب پسند کی شادیوں کا سہارا لے کر ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کے لئے اسے یہی بتانا ہے کہ ہمارا لاہور ہی نہیں پورا پاکستان بہت خوبصورت ہے اور اسے بنجر اور بے آباد کرنے کے تمام منصوبے نعرہ تکبیر کا نعرہ مستانہ بلند ہونے کے ساتھ ہی ناکام ہو جائیں گے۔
انشاءاللہ
کہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تو سکھ آج بھی کہہ رہے ہیں
تیرا میرا رشتہ کیا؟ لا الہ الا اللہ
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ
اور پھر جب آخر میں غیر مسلم نعرہ تکبیر بلند کر دیتے ہیں تو ہر طرف سے اللہ اکبر‘ اللہ اکبر ذہنوں سے نکل کر زبانوں پر آ جاتا ہے۔ (خشم شد)
مزیدخبریں