خواجہ عبدالوحید کا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے علامہ اقبال کو اپنے بچپن میں دیکھا تھا۔ اور ان سے عقیدت پیدا ہوئی تو اس عقیدت کو علامہ اقبال کی زندگی آخری ایام تک قائم رکھا۔ خواجہ عبدالوحید ملی لاج (اندرون بھائی دروازہ) کے مقیم خواجہ کریم بخش کے صاحبزادے تھے۔ انکی رہائش گاہ اس زمانے میں لاہور کا ایک اہم ادبی مرکز تھا اور یہاں ہر شام سر عبدالقادر، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، مولوی احمد دین، شہاب الدین، مولوی انشاءاللہ خان، مولانا عبداللہ، ٹونکی جمع ہوتے ا ور ادبی مباحثہ کا سلسلہ سرگرمی سے جاری رہتا۔ کلیم احمد شجاع نے اپنی کتاب ”خوں بہا“ میں لکھا ہے کہ سر محمد اقبال (مرحوم) جب تک اپنا کلام ملی لاج کے بزرگوں کو سنا نہ لیتے تھے کسی مجلس میں نہیں پڑھتے تھے“ ان بزرگوں نے بچوں کو بھی اجازت دے رکھی تھی کہ م¶دب بیٹھ کر انکی باتیں سنیں،خواجہ عبدالوحید (پ 3 جنوری1901ئ) کا علمی و ادبی ذوق انہیں محفلوں میں پروان چڑھا اور انہیں علامہ اقبال کی شفقت بھی نصیب ہوئی۔ علامہ اقبال میو روڈ پر اپنی نئی رہائش گائہ جاوید منزل پر منتقل ہو گئے تو خواجہ عبدالوحید نے بھی انکے قریب ہی اپنا آشیانہ ”قدیر منزل“ کے نام سے تعمیر کر لیا اور علامہ اقبال سے اپنی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
اسلامیات، تاریخ اور اقبالیات انکی دل چسپی کے اہم ترین موضوعات تھے۔ اسلام کی نشاة ثانیہ کےلئے وہ علامہ اقبال اور مولانا احمد علی لاہوری کے مشورے سے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ متعدد کتابیں تالیف کرنے کے علاوہ انہوں نے ”جمعیت شبان المسلمین“ قائم کی جس کا مقصد علامہ اقبال کی قیادت میں ذہنی و فکری انقلاب کی تیاری کرنا تھا۔ انہوں نے پندرہ روزہ رسالہ ”اسلام“ کا اجراءبھی کیا جس کی سرپرستی علامہ اقبال فرماتے تھے۔ خواجہ عبدالوحید کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنی جوانی کے ایام میں روز نامچہ نگاری کا شغل اختیار کئے رکھا‘ جس میں وہ دن بھر کے اہم واقعات کا تذکرہ رقم کر ڈالے تھے۔ انکا یہ روزنامچہ اب ”یاد ایام“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے اور اس میں1929ءسے لےکر 1937تک کے وہ واقعات درج ہیں جو خواجہ عبدالوحید کو درپیش آئے۔ اس روزنامچے کی تالیف خواجہ عبدالوحید کے فرزند جناب مشفق خواجہ نے کی ہے لیکن اسکی اشاعت انکی وفات کے بعد عمل میں آئی۔ یہ روزنامچہ اس دور کی سچی تاریخ کا آئینہ ہے اور اس میں علامہ اقبال سے خواجہ عبدالوحید کی ملاقاتوں کا تذکرہ بھی تفصیل سے درج ہے۔ میں اس مضمون میں ”یاد ایام“ کے آئینے سے ”ذکر اقبال“ کے چند اقتباسات منعکس کرتا ہوں جو علامہ اقبال کی تفہیم میں معاونت کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں۔
8 اکتوبر 1938ئ:
”میں اسٹیشن پر ایک چٹھی سپرد ڈاک کرنے کےلئے گیا۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے جب میں سر محمد اقبال کی کوٹھی کے سامنے سے گزر رہا تھا، خیال آیا کہ ان سے ملاقات کر لوں‘ چنانچہ فوراً ادھر کو مڑا۔ آپ برآمدے میں چارپائی پر لیٹے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب دیکھ رہے تھے۔ سوائے ایک ملازم کے جو انکے پاﺅں دبا رہا تھا اور کوئی پاس نہ تھا ۔ میں پونے نو بجے شب سے پونے گیارہ بجے شب تک انکے پاس بیٹھا رہا۔ بڑی پر لطف صحبت رہی، بے شمار باتیں مختلف الانواع موضوعات پر ہوئیں اور اس تمام عرصے میں کوئی اور شحص ہمارے پاس نہ آیا۔
جو لطف اور خوشی مجھے ان دو گھنٹوں میں حاصل ہوئی، وہ میری زندگی کی ایک بہت ہی غیر معمولی چیز ہے۔ میں تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ دو گھنٹے میری زندگی کے بہترین اوقات میں سے تھے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ تمام باتیں جو علامہ نے میرے سامنے کیں لفظ بلفظ یہاں دوہرا دوں لیکن باتوں کی کثرت ہی مانع ہو رہی ہے“ (یاد ایام ص159)
4 اکتوبر 1934ء
گزشتہ شب میں سیر کرتا ہوں پھر علامہ سر محمد اقبال کے دولت کدے پر جا نکلا، اس وقت حضرت علامہ کے پاس ملک لال دین قیصر صاحب، استاد عشق لہر صاحب اور ایک ”حکیم صاحب“ بیٹھے تھے۔ دس منٹ کے بعد وہ لوگ چلے گئے اور میں اور حضرت علامہ باتیں کرنے کےلئے رہ گئے۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک پر لطف علمی گفتگو ہوئی۔ اس مسئلے پر گفتگو کا سلسلہ چھڑ گیا کہ اہل یورپ جن باتوں کا صدیوں تک تجربہ کر کے ان سے متنفر ہو چکے ہیں۔ یورپ کے ایشیائی مقلدین، انہیں کے پیچھے جا رہے ہیں۔
30نومبر 1934 گزشتہ یک شنبہ کو میں برادرم نذیر( محمد شریف) پنی صاحب اور انکے دو اور دوست علامہ سر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم لوگ قریباً دو گھنٹے انکے پاس بیٹھے رہے۔ اس عرصے میں علامہ موصوف کے خیالات عالیہ سے ہم لوگ بڑی حد تک فیضیاب ہوئے اور سب احباب کی رائے میں ہمارا وہ وقت بہت ہی بابرکت شغل میں صرف ہوا۔ حکمت و معرفت کے دریا تھے جو ہمارے سامنے بہتے چلے جا رہے تھے۔
علامہ موصوف نے سیاسیات، اقتصادیات، تصوف،، شریعت، غرض سبھی قسم کے مسائل پر رائے زنی کی۔ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ ایک قوم یا فرد کو حالات کی نامساعدت اور بخت کی نارسائی سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بے سروسامانی، افلاس، اور فقر سے بھی انسان بے انتہا فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ ایک مفلس آدمی جس کے پاس چھن جانے کےلئے کچھ نہیں یا جسے کسی حال و متاع کی محبت اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی حق و صداقت کی حمایت میں دلیری اور جرا¿ت دکھا سکتا ہے۔
یکم اپریل 1935
کل سر محمد اقبال سے میں نے ادب لطیف کی تعریف پوچھی تو دوران گفتگو ادب اور آرٹ پر تبادلہ خیالات ہوا اور اس سلسلے میں بہت سی پر از معلومات اور دلچسپ باتیں ڈاکٹر صاحب نے کیں۔ آپ نے کہا کہ اگرچہ آرٹ کے متعلق دو نظریے موجود ہیں۔ اول یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس ہے۔ دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کو فائدہ پہنچنا چاہئے۔ ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسان کی زندگی کےلئے وقف ہونا چاہئے‘ اس لئے ہر وہ آرٹ زندگی کےلئے مفید ہو جائز ہے اور جو زندگی کےخلاف ہو، جو انسان کی ہمتوں کو پست اور جذبات حسنہ کو مردہ کرنےوالا ہو، قابل نفرت ہے اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دی جانی چاہئے۔ اس پر حکومت کے فرائض پر اظہار خیال ہونے لگا اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ حکومت کا سب سے بڑا فرض افراد کے اخلاق کی حفاظت ہے لیکن اس سب سے بڑے فرض کو دنیائے جدید تسلیم ہی نہیں کرتی۔ حکومتیں محض سیاسی خیالات سے تعلق رکھتی ہیں۔ افراد کے اخلاق کو درست کرنا اپنے فرائض میں داخل ہی نہیں سمجھتیں۔
پھر اسلام اور تہذیب حاضرہ کا ذکر ہوا، فرمانے لگے کہ اسلام تہذیب حاضرہ کی تمام ضروری اور اصولی چیزوں کا دشمن ہے۔ اس لئے مسمانوں کو اسے تباہ کرنے کی کوششیں کرنا چاہئے نہ یہ کہ ان چیزوں کو جزو اسلام بنا لیا جائے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ اب دنیا اسلام کیطرف آ رہی ہے‘ اس لئے اگر آج تہذیب مغربی تباہ ہو جائے تو اسلام کا بولا بالا ہو جائےگا۔ اس لئے مسلمانوں کو اس آنےوالے دور کےلئے تیار ہو جانا چاہئے‘ جس وقت تہذیب جدید کا خاتمہ ہو، مسلمانوں کو اسلام کا علم بلند کر دینا چاہئے۔ آرٹ کے مضر اثرات کے متعلق آپ نے یہ بھی فرمایا کہ بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمیشہ کےلئے مردہ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ہندوﺅں کی تباہی میں موسیقی کا بہت حصہ رہا ہے۔ (ص197-8)
29 اپریل1935
”پرسوں رات علامہ سر محمد اقبال نے بڑی پرجوش باتیں کیں۔ میں جب کبھی ان سکے ملتا ہوں، جی چاہتا ہے کہ انکی باتیں لکھتا جاﺅں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور بعد میں اکثر باتیں بھول جاتا ہوں‘ اس روز آپ نے فرمایا: ”جو جذبہ آج شاتم رسول کی سزا کے طور پر ہندو کےخلاف ظاہر ہو رہا ہے۔ وہ عنقریب انگریزوں کی طرف رخ پھیرنے والا ہے۔
حضرت علامہ کے خیال میں ”دنیائے اسلام کی فلاحسلطنت برطانیہ کی تباہی پر منحصر ہے۔“ (ص214)
16 دسمبر1935
”آج حافظ حبیب اللہ صاحب کی معیت میں علامہ سر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باتوں باتوں میں جہاد پر گفتگو (شروع) ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ جہاد دفاعی ہونا چاہئے یا جارحانہ؟“ فرمانے لگے کہ عام طور پر دفاعی ہے لیکن بوقت ضرورت جارحانہ بھی ہو سکتا ہے۔
مثلاً اگر کوئی قوم بد اخلاقی میں اس قدر بڑھ جائے کہ جس سے دنیا میں نسل انسانی بالعموم تباہ ہو سکتی ہے تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ بزور شمشیر اس قوم میں سے خرابی کو مٹانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ سلطان ٹیپو مرحوم نے مالا بار کے غیر مسلم وحشی باشندوں کو کہا تھا کہ تم بجائے برہنہ پھرنے کپڑے پہنا کرور، ورنہ میں بزور شمشیر تمہیں مسلمان بنا کر تمہیں کپڑے پہننے پر مجبور کر دوں گا۔نیز آپ نے آج یہ بھی فرمایا کہ قرآن میں جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اشاعت حق کے پیچھے شمشیر کی حمایت ہونی چاہئے۔ ورنہ بغیر طاقت کے امر و نہی کیسے ممکن ہے۔ اگر امرو نہی کے فرائض مسلمان ادا کرنا چاہتے ہیں تو انکے بازوﺅں میں طاقت ہونی چاہئے( ص291-2)
علامہ اقبالؒ کے یہ تصورات ان کی شاعری اور نثر کی کتابوں میں بانداز دگر موجود ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کے مسلمان حکمران ان تصورات پر عمل کے برعکس مغرب کی دریوزہ گری، کاسہ لیسی اور گداگری میں مصروف ہیں اور نتیجہ وہ مایوسی اور ابتری ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلتی چلی جا رہی ہے اور ترقی معکوس عروج پر ہے۔
اسلامیات، تاریخ اور اقبالیات انکی دل چسپی کے اہم ترین موضوعات تھے۔ اسلام کی نشاة ثانیہ کےلئے وہ علامہ اقبال اور مولانا احمد علی لاہوری کے مشورے سے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ متعدد کتابیں تالیف کرنے کے علاوہ انہوں نے ”جمعیت شبان المسلمین“ قائم کی جس کا مقصد علامہ اقبال کی قیادت میں ذہنی و فکری انقلاب کی تیاری کرنا تھا۔ انہوں نے پندرہ روزہ رسالہ ”اسلام“ کا اجراءبھی کیا جس کی سرپرستی علامہ اقبال فرماتے تھے۔ خواجہ عبدالوحید کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنی جوانی کے ایام میں روز نامچہ نگاری کا شغل اختیار کئے رکھا‘ جس میں وہ دن بھر کے اہم واقعات کا تذکرہ رقم کر ڈالے تھے۔ انکا یہ روزنامچہ اب ”یاد ایام“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے اور اس میں1929ءسے لےکر 1937تک کے وہ واقعات درج ہیں جو خواجہ عبدالوحید کو درپیش آئے۔ اس روزنامچے کی تالیف خواجہ عبدالوحید کے فرزند جناب مشفق خواجہ نے کی ہے لیکن اسکی اشاعت انکی وفات کے بعد عمل میں آئی۔ یہ روزنامچہ اس دور کی سچی تاریخ کا آئینہ ہے اور اس میں علامہ اقبال سے خواجہ عبدالوحید کی ملاقاتوں کا تذکرہ بھی تفصیل سے درج ہے۔ میں اس مضمون میں ”یاد ایام“ کے آئینے سے ”ذکر اقبال“ کے چند اقتباسات منعکس کرتا ہوں جو علامہ اقبال کی تفہیم میں معاونت کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں۔
8 اکتوبر 1938ئ:
”میں اسٹیشن پر ایک چٹھی سپرد ڈاک کرنے کےلئے گیا۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے جب میں سر محمد اقبال کی کوٹھی کے سامنے سے گزر رہا تھا، خیال آیا کہ ان سے ملاقات کر لوں‘ چنانچہ فوراً ادھر کو مڑا۔ آپ برآمدے میں چارپائی پر لیٹے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب دیکھ رہے تھے۔ سوائے ایک ملازم کے جو انکے پاﺅں دبا رہا تھا اور کوئی پاس نہ تھا ۔ میں پونے نو بجے شب سے پونے گیارہ بجے شب تک انکے پاس بیٹھا رہا۔ بڑی پر لطف صحبت رہی، بے شمار باتیں مختلف الانواع موضوعات پر ہوئیں اور اس تمام عرصے میں کوئی اور شحص ہمارے پاس نہ آیا۔
جو لطف اور خوشی مجھے ان دو گھنٹوں میں حاصل ہوئی، وہ میری زندگی کی ایک بہت ہی غیر معمولی چیز ہے۔ میں تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ دو گھنٹے میری زندگی کے بہترین اوقات میں سے تھے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ تمام باتیں جو علامہ نے میرے سامنے کیں لفظ بلفظ یہاں دوہرا دوں لیکن باتوں کی کثرت ہی مانع ہو رہی ہے“ (یاد ایام ص159)
4 اکتوبر 1934ء
گزشتہ شب میں سیر کرتا ہوں پھر علامہ سر محمد اقبال کے دولت کدے پر جا نکلا، اس وقت حضرت علامہ کے پاس ملک لال دین قیصر صاحب، استاد عشق لہر صاحب اور ایک ”حکیم صاحب“ بیٹھے تھے۔ دس منٹ کے بعد وہ لوگ چلے گئے اور میں اور حضرت علامہ باتیں کرنے کےلئے رہ گئے۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک پر لطف علمی گفتگو ہوئی۔ اس مسئلے پر گفتگو کا سلسلہ چھڑ گیا کہ اہل یورپ جن باتوں کا صدیوں تک تجربہ کر کے ان سے متنفر ہو چکے ہیں۔ یورپ کے ایشیائی مقلدین، انہیں کے پیچھے جا رہے ہیں۔
30نومبر 1934 گزشتہ یک شنبہ کو میں برادرم نذیر( محمد شریف) پنی صاحب اور انکے دو اور دوست علامہ سر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم لوگ قریباً دو گھنٹے انکے پاس بیٹھے رہے۔ اس عرصے میں علامہ موصوف کے خیالات عالیہ سے ہم لوگ بڑی حد تک فیضیاب ہوئے اور سب احباب کی رائے میں ہمارا وہ وقت بہت ہی بابرکت شغل میں صرف ہوا۔ حکمت و معرفت کے دریا تھے جو ہمارے سامنے بہتے چلے جا رہے تھے۔
علامہ موصوف نے سیاسیات، اقتصادیات، تصوف،، شریعت، غرض سبھی قسم کے مسائل پر رائے زنی کی۔ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ ایک قوم یا فرد کو حالات کی نامساعدت اور بخت کی نارسائی سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بے سروسامانی، افلاس، اور فقر سے بھی انسان بے انتہا فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ ایک مفلس آدمی جس کے پاس چھن جانے کےلئے کچھ نہیں یا جسے کسی حال و متاع کی محبت اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی حق و صداقت کی حمایت میں دلیری اور جرا¿ت دکھا سکتا ہے۔
یکم اپریل 1935
کل سر محمد اقبال سے میں نے ادب لطیف کی تعریف پوچھی تو دوران گفتگو ادب اور آرٹ پر تبادلہ خیالات ہوا اور اس سلسلے میں بہت سی پر از معلومات اور دلچسپ باتیں ڈاکٹر صاحب نے کیں۔ آپ نے کہا کہ اگرچہ آرٹ کے متعلق دو نظریے موجود ہیں۔ اول یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس ہے۔ دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کو فائدہ پہنچنا چاہئے۔ ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسان کی زندگی کےلئے وقف ہونا چاہئے‘ اس لئے ہر وہ آرٹ زندگی کےلئے مفید ہو جائز ہے اور جو زندگی کےخلاف ہو، جو انسان کی ہمتوں کو پست اور جذبات حسنہ کو مردہ کرنےوالا ہو، قابل نفرت ہے اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دی جانی چاہئے۔ اس پر حکومت کے فرائض پر اظہار خیال ہونے لگا اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ حکومت کا سب سے بڑا فرض افراد کے اخلاق کی حفاظت ہے لیکن اس سب سے بڑے فرض کو دنیائے جدید تسلیم ہی نہیں کرتی۔ حکومتیں محض سیاسی خیالات سے تعلق رکھتی ہیں۔ افراد کے اخلاق کو درست کرنا اپنے فرائض میں داخل ہی نہیں سمجھتیں۔
پھر اسلام اور تہذیب حاضرہ کا ذکر ہوا، فرمانے لگے کہ اسلام تہذیب حاضرہ کی تمام ضروری اور اصولی چیزوں کا دشمن ہے۔ اس لئے مسمانوں کو اسے تباہ کرنے کی کوششیں کرنا چاہئے نہ یہ کہ ان چیزوں کو جزو اسلام بنا لیا جائے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ اب دنیا اسلام کیطرف آ رہی ہے‘ اس لئے اگر آج تہذیب مغربی تباہ ہو جائے تو اسلام کا بولا بالا ہو جائےگا۔ اس لئے مسلمانوں کو اس آنےوالے دور کےلئے تیار ہو جانا چاہئے‘ جس وقت تہذیب جدید کا خاتمہ ہو، مسلمانوں کو اسلام کا علم بلند کر دینا چاہئے۔ آرٹ کے مضر اثرات کے متعلق آپ نے یہ بھی فرمایا کہ بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمیشہ کےلئے مردہ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ہندوﺅں کی تباہی میں موسیقی کا بہت حصہ رہا ہے۔ (ص197-8)
29 اپریل1935
”پرسوں رات علامہ سر محمد اقبال نے بڑی پرجوش باتیں کیں۔ میں جب کبھی ان سکے ملتا ہوں، جی چاہتا ہے کہ انکی باتیں لکھتا جاﺅں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور بعد میں اکثر باتیں بھول جاتا ہوں‘ اس روز آپ نے فرمایا: ”جو جذبہ آج شاتم رسول کی سزا کے طور پر ہندو کےخلاف ظاہر ہو رہا ہے۔ وہ عنقریب انگریزوں کی طرف رخ پھیرنے والا ہے۔
حضرت علامہ کے خیال میں ”دنیائے اسلام کی فلاحسلطنت برطانیہ کی تباہی پر منحصر ہے۔“ (ص214)
16 دسمبر1935
”آج حافظ حبیب اللہ صاحب کی معیت میں علامہ سر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باتوں باتوں میں جہاد پر گفتگو (شروع) ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ جہاد دفاعی ہونا چاہئے یا جارحانہ؟“ فرمانے لگے کہ عام طور پر دفاعی ہے لیکن بوقت ضرورت جارحانہ بھی ہو سکتا ہے۔
مثلاً اگر کوئی قوم بد اخلاقی میں اس قدر بڑھ جائے کہ جس سے دنیا میں نسل انسانی بالعموم تباہ ہو سکتی ہے تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ بزور شمشیر اس قوم میں سے خرابی کو مٹانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ سلطان ٹیپو مرحوم نے مالا بار کے غیر مسلم وحشی باشندوں کو کہا تھا کہ تم بجائے برہنہ پھرنے کپڑے پہنا کرور، ورنہ میں بزور شمشیر تمہیں مسلمان بنا کر تمہیں کپڑے پہننے پر مجبور کر دوں گا۔نیز آپ نے آج یہ بھی فرمایا کہ قرآن میں جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اشاعت حق کے پیچھے شمشیر کی حمایت ہونی چاہئے۔ ورنہ بغیر طاقت کے امر و نہی کیسے ممکن ہے۔ اگر امرو نہی کے فرائض مسلمان ادا کرنا چاہتے ہیں تو انکے بازوﺅں میں طاقت ہونی چاہئے( ص291-2)
علامہ اقبالؒ کے یہ تصورات ان کی شاعری اور نثر کی کتابوں میں بانداز دگر موجود ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کے مسلمان حکمران ان تصورات پر عمل کے برعکس مغرب کی دریوزہ گری، کاسہ لیسی اور گداگری میں مصروف ہیں اور نتیجہ وہ مایوسی اور ابتری ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلتی چلی جا رہی ہے اور ترقی معکوس عروج پر ہے۔