اگست دو ہزار دو میں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی کے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے مقدمہ میں ملوث چھ ملزمان کو سزائے موت سنائی جبکہ آٹھ کو بری کر دیا۔ سزائے موت کے خلاف ملزمان کی اپیل پرلاہور ہائیکورٹ نے تیرہ افراد کو بری کرکے ایک ملزم عبدالخالق کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ اسی دوران وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے حدود مقدمات کے حوالے سے سامنے آنے والے فیصلے نے نیا تنازع کھڑا کر دیا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لیتے ہوئے اٹھائیس جون دو ہزار پانچ کواس کیس کی سماعت شروع کی اورتمام ملزمان کو گرفتار کرادیا ۔ جسٹس شاکراللہ جان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ستائیس جنوری دو ہزار گیارہ کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج سنایا گیا ہے، اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اگر مقدمہ کے ان پانچ ملزمان کے خلاف کوئی اور کیس نہیں ہے تو اُنہیں فوری طور پر رہا کردیا جائے جبکہ ایک ملزم عبدالخالق کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔