انگریزوں کے برصغیر پر قبضے کے بعد یہاں بھی سائنسی ایجادات اور عقلیت پسندی کی تحریک اور ذہنی بیداری کا آغاز ہوا۔ اسی دوران روسی انقلاب کی لہر بھی ہندوستان میں اپنا اثر پیدا کر چکی تھی۔ جو سراسر مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک علیحدہ مساویانہ نظام کا خواب تھا۔
اقبال کے عہد میں جنگ عظیم نے دنیا کو بری طرح متاثر کیا۔ روس اور چین بیداری کی طرف گامزن تھے مگر اس کے مقابلے میں اہل اسلام ذہنی جمود کا شکار تھے۔ جس سے اقبال بہت پریشان تھے کیوں کہ ان کے نزدیک ایک طرف مغربی سرمایہ دارانہ اور دوسری طرف سوشلسٹ کا نظام مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کر رہا تھا اور اسلامی نظام معیشت ان چیلنجز کا جواب دینے میں بے بس نظر آرہی تھی کیونکہ اسلامی مفکرین عرصہ دراز سے اس اہم موضوع سے بے نیاز ہو کر صرف قیل و قال میں مصروف تھے اور مسلمانوں کی حالت پوری دنیا میں اقتصادی طورپر نہایت پتلی تھی اور اسی معاشی کمزوری کی وجہ وہ سے ہر جگہ پس رہے تھے۔ خلافت صرف نام کی رہ گئی تھی۔ اسلامی معیشت کے مقابلے میں اب سرمایہ داری اور سوشلزم اپنی جگہ بنا رہے تھے۔ اس عرصہ میں اقبال بھی ان دونوں کا بھرپور مطالعہ کر چکے تھے اور ان کی اچھائیوں اور برائیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خطرناکیوں کو دیکھتے ہوئے اقبال
کب ڈوبے کا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
جیسے اشعار سے اسکی ہولناکیوں کو آشکار کرتے ہوئے اسکے خاتمے کی خواہش کرتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں آنے والے دور سے مکمل آگہی تھی۔ جس سے ہم آج گزر رہے ہیں اور اپنی آنکھوں سے سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں امیر ملکوں اور امیر طبقوں کے ہاتھوں غریب اقوام اور غریب طبقات کا بدترین استحصال ہمارے سامنے ہے۔
اقبال اسی بدترین استحصال نظام سے تحفظ کیلئے عالم انسانیت کی بقا کیلئے ایک ایسے اسلامی معاشی نظام اور نظام معیشت کے داعی تھے جس میں زر کی بنیاد پر کوئی طبقہ کسی دوسرے کا استحصال نہ کرے۔ اقبال اپنی کتاب ”الاقتصاد“ اور دیگر تحریروں میں اسی لئے جاگیر داری کے خاتمے کی شدید خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور زمین کی چھوٹے کسانوں اور بے زمین مزارعوں میں تقسیم کے حق آواز بلند کرتے ہیں اور اپنے اشعار میں اسکی مذمت بھی کرتے نظر آتے ہیں ان کا شہرہ آفاق شعر ....
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اسی ظالم زمین کی تقسیم اور وسائل پر ایک طبقے کی اجارہ داری کے خلاف بھرپور احتجاج ہے جس نے ہمیشہ غریبوں‘ مزدوروں اور مزارعوں کو محنت کرنے والے طبقات کو متاثر کیا اور ان میں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔
اقبال کے معاشی خیالات اور افکار پر کارل مارکس کے سوشلزم تحریک کا اثر بھی نمایاں نظر آتا ہے جو دراصل سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے خلاف اس وقت سب سے بڑی موثر جوابی تحریک تھے۔ جس نے دنیا کے ایک بڑے حصہ کو متاثر کیا تھا اور اقبال بھی اسے اسلام کے قریب تر محسوس کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود اقبال مکمل طور پر اس سیلاب میں بہنے سے خود کو بچا لیتے ہیں اور اسلام کے اقتصادی نظریات اور افکار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں انسانی نظاموں کے مقابلے میں ایک الہامی نظام معیشت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ جس میں انسان انسان کا دشمن نہیں ہوتا۔ حرص اور لالچ کی بجائے احسان اور ایثار انسانی زندگی میں جگہ بناتے ہیں۔ جس کی بدولت انسانی معاشرہ جبری مسلط کردہ پابندیوں سے آزاد ہو کر اپنی جسمانی روحانی آسودگی اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بہتری کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ بقول اقبال ....
انسان کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کر
کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار
جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
اور موجودہ حالات میں جب سوشلزم اور کیپٹلزم کا نظام دنیا بھر میں بھرپور تباہی پھیلا چکا ہے۔ ہمیں اقبال کی تعلیمات اور افکار کی روشنی میں قرآن کے معاشی نظام کی طرف جدید اجتہاد کے ذریعے رجوع کرنا ہو گا کیونکہ اس میں سب کی بقا اور فلاح ہے اور اسی میں دنیا اور دین کی بہتری بھی ہے۔ جس میں کوئی طاقت طبقہ کمزور طبقے کو کچل نہیں سکتا۔ اسکے حقوق پر ڈاکا نہیں ڈال سکتا۔ مگر ہمار اکثر مسلم حکمران اس نظام سے خوفزدہ ہیں اور اسکے نفاذ میں رکاوٹ بنے ہیں اس لئے بزبانِ ابلیس اقبال کہتے ہیں ....
جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآن نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
اقبال کا اقتصادی تصور
Apr 21, 2014