مسلمانان برصغیر کا عظیم الشان اجتماع 31-29 دسمبر 1930ءمسلم لیگ کے بینر تلے‘ زیر صدارت مفکر عالم اسلام حکیم الامت علامہ محمد اقبال منعقد ہوا۔ جلسہ کے اہم منظمین میں سید حسین امام‘ سید حبیب اللہ‘ مولوی عبدالقادر قریشی‘ مولانا عبدالماجد بدایونی‘ سید ذاکر علی دیگر سینکڑوں کارکنان شامل تھے۔ وہ عظیم اجلاس ہندوستان کے جن معروضی سیاسی حالات کے تناظر میں ہوا ان کا اجمالی جائزہ ضروری ہے تاکہ صورتحال واضح ہو جائے۔ 1919ءکے ایکٹ کے بعد 1929ءمیں نئی دستوری اصلاحات رائج ہونا تھیں۔ اس سلسلہ میں نئی سفارشات تجاویز مرتب کرنے کے لئے 1927ءمیں سر جان سائمن کو ہندوستان بھیجا گیا لیکن دونوں سیاسی جماعتوں نے خاص تعاون نہ کیا۔ ملک کے طول و عرض میں کمشن کا بائیکاٹ ہوا۔ انہی ایام میں مسلم لیگ بھی دھڑا بندی کا شکار تھی۔ برطانوی حکومت کے وزیر امور ہند لارڈ برکن ہیڈ نے ہندوستان کے تمام سیاسی عمائدین کو سیاسی و آئینی متفقہ تجاویز منظر پر لانے کا چیلنج دیا۔ اسی سلسلہ میں 1928ءمیں ”نہرو رپورٹ“ کانگرسی قیادت نے مسلمانوں کو اعتماد میں لئے بغیر منظور کی جس کے بارے میں تمام مسلم قائدین خصوصاً قائداعظم‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا حسرت موہانی‘ نہرو رپورٹ کو مسلم حقوق و مطالبات کے لئے سم قاتل سمجھتے تھے۔ علامہ اقبال نے بھی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا
”ہندوستان کے پنڈت چاہتے ہیں کہ مرکزی اسمبلی کے اختیارات مرکزی اسمبلی کی صوابدید پر چھوڑ دیئے جائیں جہاں ہندو¶ں کی واضح اکثریت ہے وہ حکومت کے موجودہ اختیارات میں ذرہ برابر کمی نہیں چاہتے“اس طرح مسلم ہندو عدم تعاون سیاسی حالات میں بے چینی میں اضافہ کا باعث بن رہا رہا تھا لہٰذا برطانوی حکومت نے 1929ءتا 1932ءتین گول میز کانفرنسز انگلستان میں منعقد کیں تاکہ حل طلب آئینی سیاسی مسائل کا تصفیہ ہو سکے۔ ایسے معروضی حالات میں مسلم لیگ کا اہم تاریخی اجلاس الہ آباد میں علامہ اقبال کی زیر صدارت دسمبر 1930ءمیں منعقد ہوا۔ جس کے اہم نکات کی تلخیص مندرجہ ہے اور انہیں آج کی ملکی سیاسی صورت حال اور حکمرانوں کے عمومی رویہ کے تناظر میں اسکی اہمیت کو واضح طور پر سمجھا جا سکے۔ اسلام اور قومیت: یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بحیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظام سیاست اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا جس سے مسلمانان برصغیر کی تاریخ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات سے معمور ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دار و مدار ہے اور جن سے منتشر اور متفرق افراد بتدریج متحد ہو کر ایک مربوط اور معین قوم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان بھی تنظیم اسلامی کی ترتیب صرف دین اسلام ہی کی رہین منت ہے“
بلاشبہ علامہ اقبال کی دوررس نگاہوں اور عمیق مشاہدوں نے امت مسلمہ میں یکتائی پیدا کی اور مسلمانان برصغیر نےخاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی کا عملی نمونہ بن کر ہندو¶ں کے متحدہ قومیت کے نئے تراشیدہ بت کو پاش پاش کر دیا۔فرقہ واریت کی ہوس کاری: ہندو¶ں نے متحدہ قومیت کی آڑ میں مسلمانوں میں بھی نقب زنی کوشش جاری رکھی حالانکہ صرف مسلمانوں میں تفرقہ ڈال کر اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے کوشاں تھے جبکہ مسلمانوں نے انہیں ہمیشہ سیاسی تعاون کی پیش کش کی مگر اسے اہمیت نہ دی جاتی۔ علامہ نے اس صورت حال کو نہایت خوبصورت انداز میں واضح کرتے ہوئے فرمایا‘ ”ان حالات کے باوجود یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ ہم نے باہمی تعاون اشتراک کی آج تک جتنی کوشش بھی کیں وہ سب رائیگاں گئیں سوال پیدا ہوتا ہے ایسا کیوں ہے؟ یہ کہنا مبنی برحقیقت ہو گا کہ شاید ہمیں ایک دوسرے کی نیتوں پر شک ہے اور بباطن ہم غلبہ حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہم اپنی ”نفسانیت“ کو ”قومیت“ کے پردے میں چھپائے پھرتے ہیں۔ ظاہراً حب الوطنی لیکن دلوں میں ذات پات کی تنگ نظری اور فرقہ واریت کی ہوس کاری بدستور موجزن چلی آتی ہے۔ ہندو¶ں کے خیال کے مطابق لفظ قومیت کا مفہوم صرف اس قدر ہے کہ برصغیر کے تمام باشندے اس طرح خلط ملط ہو جائیں کہ ان میں مخصوص ملت کا وجود باقی نہ رہے لیکن برصغیر کی صورتحال ایسی نہیں ہے اور نہ ہی ہم اسکے خواہشمند ہیں۔ برصغیر میں خصوصاً موجودہ حالات میں یہ توقع کرنا کہ علاقہ وار انتخابات سے ہر قوم کی نمائندگی ہو گی ناممکن ہے۔ ماسوائے اس کے کہ تمام اقلیتوں پر ہندو اکثریت کا غلبہ قائم ہو جائے“
آج بھی ہمارے حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور ارباب اختیار کے لئے علامہ اقبال کی بصیرت افروز چند باتیں جنہیں اختصار سے تحریر کیا گیا ہے باعث رہنمائی ثابت ہو سکتی ہیں۔ بشرطیکہ وہ ان کے مفصل فرمودات کا مطالعہ کریں۔ بھارتی مرحلہ وار انتخابات اس حقیقت کے آئندہ وار ہیں کہ بقول علامہ اقبال محض ہندو¶ں کی اجارہ داری کا باعث بنیں گے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کو آج بھی بھارتی لوک سبھا میں صرف اڑھائی فیصد نمائندگی دی جاتی ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا کروڑوں بار شکر ادا کرنا چاہئے کہ علامہ اقبال کے افکار پر عمل پیرا ہو کر قائداعظم نے ہمارے لئے ایک بے مثل وطن قائم کیا اب ہم سب پر فرض ہے کہ اپنی جملہ کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے وطن عزیز کی ناموس اور یکجہتی کے لئے جناب آبروئے صحافت حقیقی وارث قائداعظم جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی زیر قیادت سرگرم عمل ہوں تاکہ پاکستان ایک اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی مملکت حقیقی معنوں میں بن سکیں۔ علاوہ ازیں ہندو بنئے کی متعصبانہ سوچ کو محض تجارت اور ”امن کی آشا“ کی آڑ میں نظرانداز نہ کریں۔ ”بغل میں چھری.... منہ میں رام رام“ کو پہچانیں۔