ِِ”نظریہ اقبال“

Apr 21, 2014

حکیم الامت دانائے راز‘ مرد خود بین و خود آگاہ مفکر ملت علامہ اقبالؒ کی ساری کی ساری شاعری میں قوم کے لئے تڑپ موجود ہے ہر شعر حلت کے لئے اصلاح کا پیغام دیتا ہے۔ کبھی وہ اسلاف کے کارنامے یاد دلا کر مسلمانوں کا لہو گرماتے ہیں کبھی املاک پر کمند ڈالنے کا کہہ کر نوجوانان اسلام کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ عقاب و شاہین کی تمثیل سے نوجوانوں کو کر ”بلند خیالی“ اور بلند پروازی کا درس دیتے ہیں۔ اویس قرنیؒ کا ذکر چھیڑ کہ ”حب رسول“ کی ترغیب دیتے ہیں۔ حضور کے عشق میں ان کی آنکھیں ہمیشہ پرنم رہتی تھیں۔ علامہ اقبالؒ نے خودی پر بہت زور دیا ہے خودی سے ان کی مراد ”تکبر“ یا ”خود نمائی“ نہیں ہے بلکہ وہ قوم کو خود شناسی سکھانا چاہتے تھے۔ اور اسے احساس دلانا مقصود تھا کہ تمہارے اندر قدرت نے جو ”جوہر“ پنہاں رکھے ہیں ان کو کام میں لا کر اپنے آپ کو اس قابل بناﺅ کو خدا تعالیٰ کے منتخب بندوں میں شامل ہو جاﺅ اور عملی ذہنی طور پر اللہ کے اس قدر مقرب بن جاﺅ کہ اسکی رحمتیں تم پربرسنے کے لئے مجبور ہو جائیں۔
آپ فرماتے ہیں
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ کا تمام کلام اسلامی نظریاتی کے عین مطابق ہے آپ کا سارا کلام ”احکام الٰہی“ اور ”اسوہ حسنہ“ کی عکاسی کرتا ہے اگر ان کے صرف ایک ہی شعر پر انسان عمل پیرا ہو جائے تو کامیاب مسلمان بن جاتا ہے اور دین و دنیا کی دولت اس کے قدموں تلے آ جاتی ہیں۔ ایک شعر ملاحظہ ہو....
یقین محکم عمل پیہم‘ محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اگر اس شعر کے متعلق یہ کہا جائے کہ آپ نے دریا کو ”کوزے“ میں بند کر دیا ہے تو بالکل بجا ہو گا کیونکہ اس میں علاقہ نے ”کتاب و سنت“ کے بہت سے تقاضے پورے کر دئیے ہیں۔
اقبال کہتے ہیں کہ انسان کو جس قدر مشکل درپیش ہو اس کو اسی قدر باہمت سونا چاہئے کیونکہ مشکلات ہی انسان میں مقابلہ کی قوت پیدا کرتی ہیں اعمال اچھے ہونے چاہئیں اور ان میں تسلسل ہونا چاہئے۔ انسان کی کوشش میں شوق اور لگن اس قدر بڑھتا جانا چاہئے کہ وہ ”عشق“ کی شکل اختیار کرے اقبال کہتے ہیں۔
تو رہ نورد و شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
گویا ”جدوجہد“ میں ٹھہراﺅنہ آئے چاہے یہ شوق ‘ یہ لگن‘ یہ عشق انسان کو زندگی کی ”ہدایت“ بخش دیتا ہے اقبال کہتے ہیں ” اپنے آپ کو پہچانو۔ اپنے فرائض کو پہچانو اور تن دہی سے ان کو سر انجام دو تو تسخیر کائنات بھی تمہارے لئے کوئی مسئلہ نہ ہو گا اور یہ اقبال کا مقام خودی اور یہی ہے مقام خود آگاہی۔
اقبال انگریز کے دور میں پیدا ہوئے اسی کا مقردہ نصاب پڑھا۔ انہوں نے مغرب میں خاصا مقام کیا اور وہاں پر تہذیب مغرب کا بھی مطالعہ کیا اور انہوں نے اس کے افکار و نظریات کو خوب جانچا پرکھا۔ مگر وہ اس سے متاثر ہونے کی بجائے اسے منتفر ہو گئے اور مغربی تہذیب کے بارے میں صاف صاف کہہ دیا اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے مغربی تہذیب سے اپنی نفرت کے اس برملا اظہار کے بعد انہوں نے اس کے بارے میں کھلی پیشن گوئی بھی کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا لہذا اقبال نے نظریات مغرب سے ہٹا کر قوم کو ”خودی “ کا پیغام دیا اور پیہم اور جہد مسلسل کی دعوت دی اور مسلمانان ہند کو یہ کہہ کر خبردار کیا کہ
نہ سمجھو کے تو مٹ جاﺅ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستان تک بھی ہو گی داستانوں میں
اقبال جانتے تھے کہ انگریز کے نظریات کیا ہیں اور ہندو کے ارادے کیا ہیں۔ اقبال کی شاعری اتنی وسیع ہے کہ اپنے ملک کے علاوہ دوسرے ملک میں بھی قدر کی نظروں سے دیکھی جا رہی ہے کیونکہ اس میں زندگی کے ہمہ جہتی مسائل اور فلسفہ حیات اور ترقی و ارتقاءکے مسائل کے عقدہ کشائی کی گئی ہے۔ اقبال کی شاعری نظریات و افکار میں وسعت پیدا کرتی ہے۔ زندگی کو شگفتگی اور تازگی بخشتی ہے۔ ترقی فکر و تمدنی ارتقاءکا درس دیتی ہے دعوت عمل اور جہد مسلسل کی طرف رہنمائی کرتی ہے آپ نے ”کرگس و شاہین“ کا مقابلہ کر کے سمجھایا ہے کہ عزت کی زندگی اور ذلت کی زندگی میں کیا فرق ہے۔

مزیدخبریں