سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی آخری خاتون حکمران تھیں۔ اپنے دو بڑے صاحبزادوں کے انتقال کے بعد‘ 1926ء میں وہ اپنے بیٹے پرنس حمید اللہ خاں کے حق دستبردار ہو گئیں۔ عنان حکومت سنبھالتے ہی نواب حمید اللہ خان کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ وہ نہ صرف مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے چانسلر مقرر ہوئے بلکہ چیمبر آف پرنسز کے چانسلر بھی منتخب ہو گئے۔ نواب حمید اللہ خاں (نواب بھوپال) کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ وہ ایک بیدار مغزوالئی ریاست تھے۔ انہوں نے اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور تعلیمی و ثقافتی ترقی کے لئے بہت کام کیا۔ ان کا دور 1927ء سے شروع ہوا اور 1949ء میں ختم ہوگیا جب ریاست انڈین یونین میں ضم ہو گئی۔
نواب بھوپال شدید آرزو مند تھے کہ مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو ایک مرتبہ پھر حاصل کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے 10مئی 1931ء کو بھوپال میں جداگانہ اور مخلوط انتخابات کے حامی مسلمان رہنماؤں کی کانفرنس بلائی تاکہ ان میں اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ اس کانفرنس میں علامہ اقبالؒ‘ ڈاکٹر مختار انصاری، سر محمد شفیع، تصدق احمد شیروانی اور شعیب قریشی کے علاوہ خود نواب بھوپال بھی شریک ہوئے۔ علامہ اقبال لاہور سے 9 مئی بھوپال کے لئے روانہ ہوئے اور 10مئی بھوپال پہنچے۔ اقبال حسین خان، ندیم خاص (ADC) نے اسٹیشن پر ان کا استقبال کیا۔ محل تک کار میں آتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا کہ بھئی ہمارے خیال میں تو ریاست کشمیر نواب بھوپال کو دے دی جائے اور بھوپال مہاراجہ کشمیر کو۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہاں ہندوؤں کی، اسی دن صبح گیارہ بجے علامہ اقبال کی نواب بھوپال سے ایک گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے بعد علامہ اقبال نے کہا‘ میں نہیں سمجھتا تھا کہ ہندوستان کا ایک والئی ریاست ایسا عالی دماغ بھی ہو سکتا ہے۔ نواب صاحب قوم و ملک کے لئے ایک قابل فخر ہستی ہیں‘‘۔
اسی شام مسلمان رہنماؤں کا اجلاس ہوا۔ 12 مئی کو علامہ اقبال‘ سر محمد شفیع‘ مولانا شوکت علی اور تصدق احمد خاں شیروانی کے دستخطوں سے یہ بیان شائع ہوا:‘‘ ہم 10مئی کو بھوپال میں ایک غیر رسمی اجلاس میں جمع ہوئے تاکہ ان اختلافات کو مٹائیں جن کی بنا پر مسلمان اس وقت دو سیاسی طبقوں میں تقسیم ہو رہے ہیں، ہمارا مقصد ہندو مسلم سوال کے حل کرنے میں آسانیاں پیدا کرنا تھا۔ ہماری متفقہ رائے ہے کہ اس منزل پر بحث و تمحیص کی تفصیلات شائع کرنا مفاد عامہ کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ ہم خوشی سے بیان کرتے ہیں کہ طرفین کے درمیان انتہائی خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں گفتگو ہوتی رہی۔۔۔ جون کا پہلا ہفتہ مزید گفت و شنید کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس وقت آخری اور تسلی بخش فیصلہ ہو جائے گا‘‘۔
لاہور پہنچنے پر انہوں نے یہ خبر پڑھی کہ ڈاکٹر انصاری اور شعیب قریشی بھوپال سے واپسی پر شملہ میں گاندھی جی کے مکان پر گئے اور انہیں اطلاع دی کہ نواب بھوپال نے جن اصحاب کو مدعو کیا تھا۔ انہوں نے عارضی میثاق مرتب کر لیا ہے۔ اس میثاق میں جو فامولا پیش کیا گیا ہے اس میں جداگانہ اور مخلوط انتخاب کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ فارمولہ تقریباً دس سال تک نافذ رہے گا اور اس کے بعد ہر جگہ مخلوط انتخاب ہو گا۔ اس پر 15مئی 1931ء کو علامہ اقبالؒ نے ایک بیان میں کہا: ’’چونکہ میں بھی مدعو تھا اس لئے میں یہ ظاہر کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر ڈاکٹر انصاری اور مسٹر شعیب نے بھوپال کانفرنس میں پیش کردہ ایسی تجاویز کو جن پر بحث بھی نہیں ہوئی بمنزلہ عارضی میثاق پیش کیا ہے تو انہوں نے یقیناً نہ صرف ان لوگوں کے ساتھ جن سے انہوں نے گفت و شنید کی بلکہ تمام مسلم قوم کے ساتھ برائی کی۔ میں اسے کامل طور پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عارضی میثاق کی قسم کی کوئی چیز حاضرین جلسہ کے خیال میں بھی نہیں آئی تھی۔۔۔ ایسی تجاویز کو جن پر کسی قسم کی بحث بھی نہیں ہوئی، گاندھی جی کے پاس بھاگے بھاگے لے جانے اور انہیں عارضی میثاق کے نام سے تعبیر کرنے سے شبہ ہوتا ہے کہ بھوپال کانفرنس کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر اس میںکوئی حقیقت ہے تو مجھے کامل یقین ہے کہ بھوپال کانفرنس کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر اس مں کوئی حقیقت ہے تو مجھے کامل یقین ہے کہ بھوپال یا شملہ میں دوسرا جلسہ کرنا نہ صرف مفید نہ ہوگا بلکہ لازمی طور پر مسلمانون ہند کے مفاد کے لئے ضرر رساں ہوگا‘‘۔ اس طرح گاندھی جی کی آشیر باد حاصل کرنے کے لئے ڈاکٹر انصاری اور شعیب قریشی نے مسلم رہنماؤں کو متحد کرنے کی نواب بھوپال کی کوشش کو سبوتاژ کر دیا۔ اس جلاس کے انعقاد سے پتہ چلتا ہے کہ نواب بھوپال سمجھتے تھے کہ جو چند افراد مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے بارے میں علامہ اقبال کی باتوں سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ 10 مئی 1931ء کو ان سے پہلی دفعہ ملے اور پہلی ہی ملاقات میں ان کا یہ تاثر تھا کہ وہ عالی دماغ حکمران ہیں۔
سر راس مسعود نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو نواب بھوپال کے کہنے پر ان کی ریاست میں وزیر تعلیم و صحت و امور عامہ کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس کے بعد علامہ اقبالؒ اور نواب بھوپال کے تعلقات میں جو فروغ ہو اس میں سرراس مسعود کا اہم رول ہے۔ علامہ اقبال اپنے گلے کی بیماری کی وجہ سے سخت پریشان رہتے تھے کیونکہ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ سر راس مسعود کو علامہ اقبال کی مسلسل علالت سے پریشانی تھی۔ نواب بھوپال بھی ان کی علالت سے فکر مند تھے۔ دونوں حضرات کی خواہش تھی کہ وہ بھوپال آکر بجلی کا علاج کرائیں۔ چنانچہ جب راس مسعود نے انہیں گلے کے علاج کے لئے بھوپال بلایا تو انہوں نے حامی بھر لی۔ 31 جنوری 1935ء کو اقبال بھوپال پہنچے۔ راس مسعود کے پرنسل سیکرٹری ممنون حسن خاں لکھتے ہیں: علامہ اقبالؒ کو لینے کے لئے سر راس مسعود اور میں ریلوے اسٹیشن گئے تھے۔ اگرچہ شاہی مہمان کی حیثیت سے نہیں آرہے تھے۔ پھر بھی نواب بھوپال نے اپنے ملٹری سیکرٹری کرنل اقبال محمد خاں کو اپنے نمائندے کو طور پر ان کے استقبال کے لئے بھیجا تھا۔ جب گاڑی آئی تو ایک صاحب افغانی ٹوپی شلوار اور پنجابی کوٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر اترے ۔ یہ علامہ اقبالؒ تھے سر راس کی ان پر نظر پڑی، تو استقبال کے لئے تیزی سے ان کی طرف بڑھے۔۔۔۔۔ کرنل اقبال محمد خاں نے آگے بڑھ کر کہا کہ نواب بھوپال نے سلام کے بعد کہا ہے کہ اگر آپ اور سرراس مسعود اجازت دیں تو آپ کے قیام کا انتظام شاہی مہمان خانے میں کیا جائے۔ آپ کے وہاں قیام سے نواب صاحب کو بے حد خوشی ہو گی۔ علامہ اقبالؒ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں تو اس وقت اپنے دوست سے ملنے آیا ہوں۔ نواب صاحب سے ضرور ملوں گا۔ ان کو میرا سلام اور شکریہ پہنچا دیجئے گا۔ دوسرے دن نواب بھوپال سے ملاقات کے لئے علامہ اقبالؒ ’’قصر سلطانی‘‘ روانہ ہوئے۔ گاڑی محل آکر رکی تو نواب صاحب نیچے کی سیڑھی پر علامہ اقبالؒ کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ وہ (نواب بھوپال) ان سے بڑے احترام اور محبت سے ملے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے کسی بزرگ سے مل رہے ہیں۔ پھر نواب صاحب علامہ (اقبالؒ) کو اپنے کمرے میں لے گئے جہاں ہم صرف چار آدمی تھے۔ میں سب سے پیچھے ایک گوشے میں بیٹھا ہوا تھا۔ جلد ہی کافی کا دور چلا۔ نواب صاحب نے صحت کے بارے میں پوچھا تو علامہ اقبالؒ نے بیماری اور علاج کی تفصیل بتائی۔ اس کے بعد گفتگو کا موضوع بدل گیا۔ نواب صاحب نے "An Interpretation of Holy Quran in the Light of Modern Philosophy" (جدید فلسفہ کی روشنی میں قرآن مجید کی تشریح) کے بارے میں دریافت کیا۔ علامہ اقبال نے بتایا کہ اس کتاب کا خاکہ میرے ذہن میں ہے۔ کچھ تیار بھی کر لیا ہے۔ لیکن کچھ کتابیںبیرون ملک ہیں انہیں دیکھ لینا چاہتا ہوں۔ یہ بھی کہا کہ مجھے آکسفورڈ اور کیمبرج میں توسیعی خطبات کے لئے بلایا جا رہا ہے۔ اگر میں وہاں گیا تو ان کتابوں کو دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ نواب صاحب نے کہا کہ اگر یہ کتاب مکمل ہو جائے تو ان کتابوں کو دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ نواب صاحب نے کہا کہ اگر یہ کتاب مکمل ہو جائے تو ساری ملت اسلامیہ بلکہ ساری دنیا اسے قدر کی نگاہ دے دیکھے گی۔
علامہ اقبالؒ اور نواب بھوپال
Apr 21, 2014