مختلف نیوز چینلوں پر کاکول اکیڈمی میں کیڈٹس کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ میں، وزیرِ اعظم نواز شریف کی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت اور اُن کے پاک فوج کے دستوں سے سلامی لینے کے مناظر اور پس منظر میں....
”اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا“
کے عنوان سے مِلّی ترانے کی گونج نے 1965ءکی پاک بھارت جنگ کی یاد تازہ کر دی تھی، جب پوری قوم مُتحد تھی، سیاسی اور عسکری قیادت میں غلط فہمیوں کے بادل چھٹنے کا ثبوت بھی مِل رہا تھا، وزیرِ اعظم نے پاک فوج کی ”حمزہ کمپنی“ کو قائدِاعظمؒ بَینر سے نوازا ”حمزہ کمپنی کا نام”پیغمبرِ انقلاب“ کے چچا حضرت امیر حمزہ ؓ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جو غزوہ اُحد میں شہید ہُوئے اور ”سیّداُلشہدا“ کہلائے۔ مجھے خالد بن ولید یاد آئے جو غزوہ اُحد میں کُفارِ مکّہ کی طرف سے لڑے تھے لیکن جب حضرت خالد بن ولید ؓ نے اسلام قبول کِیا تو وہ سَیف اللہ (اللہ تعالیٰ کی تلوار) کہلائے۔ مجھے وہ واقعہ بھی یاد آیا کہ جب خلیفہ اسلام دوم، حضرت عُمربن الخطاب ؓ نے خالد بن ولید ؓ کا ایک درجہ کم کرکے اُنہیں سِپہ سالارِ اعظم سے نائب سِپہ سالارِاعظم بنا دِیا تھا تو حضرت خالدبن ولید ؓ نے خلیفہ اسلامؓ کے خلاف بغاوت نہیں کی تھی۔
کالم یا افسانہ
مجھے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دِلوانے والے جنرل ضیاالحق یاد آئے اور وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اُنہیں قید کرنے، سزا دِلوانے اور جلا وطن کرنے والے جنرل پرویز مشرف بھی ماضی اور تاریخ کو تبدیل نہیں کِیا جا سکتا۔ غزوہِ اُحد میں کُفّارِ مکّہ کا سردار ابُوسفیان تھا جِس کی بیوی ”ہندہ“ نے حضرت امیر حمزہؓ کی لاش کی بے حُرمتی کی تھی اور وہ اُن کا کلیجہ کاٹ کر چبا گئی تھی۔ یہ بھی تاریخ کا حِصّہ ہے کہ ابوسفیان نے فتح مکّہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور رحمتِ دوعالم نے ہندہ کو معاف کر دیا تھا۔ حمزہ کمپنی کتنی خُوش قِسمت ہے کہ اُسے قائدِاعظمؒ بینر (Banner) سے نوازا گیا۔ قائدِاعظم ؒ جو برِصغیر پاک وہند کے عظیم ہِیروتھے اور اب بھی ہیں۔ قائدِاعظم ؒ نے بھی اپنے خلاف فتویٰ دینے والے مولویوں سے انتقام نہیں لِیا تھا اور نہ ہی اُن کی وراثت مسلم لیگ کے قائدین نے تحریکِ پاکستان کے مجاہدین اور مخالفین اور اُن کے وُرثا اپنے اپنے اکابرین کے افکار و نظریات کے مطابق پاکستان کو ڈھالنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ جمہوری طریقے سے ہو تو اچھی بات ہے لیکن قتل و غارت سے کیوں؟ اور وہ بھی نفاذِ شریعت کے نام پر؟ مسلّح جدوجہد تو، غیر ملکی قوّتوں یا ناجائز طور پر قابض حکومتوں کے خلاف کی جاتی ہے جیسا کہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں کی جا رہی ہے۔
5فروری کو، مَیں نے اپنے کالم میںآزادی کشمیر کے لئے، جدوجہد کرنے والے مجاہدین سے، اظہارِ یک جہتی کے دِن1857ءکی جنگِ آزادی کے بھولے بِسرے، پنجابی، راجپوت ہِیرو رائے احمد خان کھرل شہِید کو یاد کِیا تو بہت سے لوگوں کا ولولہ تازہ ہو گیا اور اُنہوں نے ٹیلی فون اور ایس ایم ایس کر کے میری حوصلہ افزائی بھی کی لیکن ”سانجھا پنجاب“ کی تحریک چلانے والے جو لوگ ”مہاراجا پنجاب“ رنجیت سِنگھ کو ہِیرو مانتے ہیں اُنہوں نے بڑی تکلیف کا اظہار کیا۔ 3 اپریل کو مجاہدِ تحریکِ پاکستان ڈاکٹرمجیدنظامی صاحب کی 86ویں سالگرہ کی باقاعدہ تقریب کے آغاز سے قبل ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور کی لائبریری میں روزنامہ ”خبریں“ کے چیف ایڈیٹر جناب ضیا شاہد نے جنابِ نظامی سے کہا تھا کہ”وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو آپ کی بات مانتے ہیں۔ اُنہیں سمجھائیں کہ وہ سِکھّوں سے بہت زیادہ تعلقات نہ بڑھائیں۔ آپ کے پاس یہاں بیٹھے ہُوئے صوبائی وزارتِ اطلاعات و ثقافت کے پارلیمانی سیکرٹری رانا ارشد تو سِکھّ وفود کے استقبال کے لئے ہر روز واہگہ بارڈر پر ہی ہوتے ہیں“ .... جنابِ نظامی نے رانا صاحب کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا ”میاں شہباز شریف صاحب سِکھوں سے تعلقات میں بہت محتاط ہیں اور پاکستان کے مفادات کا پورا خیال رکھتے ہیں“۔ رانا ارشد نے یہ بھی کہا کہ”میاں شہباز شریف ایک مُحب وطن قائد ہیں، وہ اگر کسی دُشمن سے بھی مِلیں تو پاکستان کے عوام کی بہتری کے لئے مِلتے ہیں۔“
19اپریل کو ایک پرائیویٹ محفل میں پیر مہر علی شاہ ایرِڈ ایگریکلچرل یونیورسٹی راولپنڈی کے وائس چانسلر رائے نیاز احمد خان کھرل نے میری ملاقات وزیرِ اعلی پنجاب کے مُعاون ِ خصوصی برائے تعلیم جڑانوالہ سے رُکن صوبائی اسمبلی رائے حیدر علی خاں سے کرائی۔ رائے صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ پہلے تو انہوں نے ”نوائے وقت“ میں رائے احمد خان کھرل شہید کی یادوں کو تازہ کرنے پر محترم مجید نظامی کا اور میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ”ڈاکٹر مجید نظامی میاں شہباز شریف صاحب سے بہت محبت کرتے ہیں اور اُنہیں ہر معاملے میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ نظامی نے میاں صاحب کو11مئی2013ءکے عام انتخابات سے قبل”شہبازِ پاکستان“ کا خطاب بھی دِیا تھا لیکن، آپ اپنے کالموں میں ”شہباز ِ پاکستان“ کے عوامی بہبود کے کاموں کی تعریف کرنے میں بہت کنجوسی سے کام لیتے ہیں جب کہ ”شہبازِ پاکستان“ کی کوششوں کی وجہ سے کئی ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔“
مجھے 47سالہ معصُوم صُورت اور خُوبصُورت وکیل حیدر علی خان کی یہ بیباکی اچھی لگی اور مَیں نے اُن سے کہا کہ”لندن میں میرا ایک بیٹا، انتصار علی چوہان بھی وکیل ہے اور اُس کے بیٹے کا نام بھی، حیدر علی چوہان ہے۔ چار بار قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہونے والے آپ کے والد صاحب کا نام رائے صلاح اُلدّین خان بھی بہت خوبصورت ہے۔ سُلطان غازی صلاح اُلدّین ایّوبی میرے آئیڈیل ہیں۔ سُلطان ہونے کے باوجود وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ محل کے بجائے معمولی سے مکان میں رہتے تھے۔ اُن کی خوراک بھی سادہ تھی۔ انہوں نے ساری زندگی ریشمی کپڑے نہیں پہنے۔ سُلطان صلاح اُلدّین ایّوبی کی مملکت حقیقی معنوں میں ”فلاحی مملکت“ تھی۔ مجھے عِلم ہے کہ محترم مجید نظامی ”شہبازِ پاکستان“ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مَیں نے جب بھی اُن کے بارے میں لِکھا فراخ دِلی سے لِکھا اور اِس حقیقت کا کئی بار اظہار کیا کہ ”شہبازِ پاکستان“ کی پانچ سالہ کارکردگی کی وجہ سے ہی11مئی 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو تیسری بار اقتدار میں آنے کا موقع مِلا لیکن میری یہ مجبوری ہے کہ مَیں گھوم پھر کر ”منجی پیڑھی ٹھُکا لو“ کی آوازیں نہیں لگاتا“۔
مَیں کئی بار لِکھ چُکا ہُوں کہ قائدِ اعظم ؒ نے اپنے شانہ بشانہ قیامِ پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والی اپنی عظِیم بہن (مادرِ مِلّت) محترمہ فاطمہ جناحؒ کو حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا اور اپنی زندگی میں ہی اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کر دِیا تھا۔ علّامہ اقبال ؒ بھی وکیل کی حیثیت سے اپنی ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھتے تھے۔ باقی مقدمات اپنے دوستوں وُکلاءمیں بانٹ دیتے تھے۔ رائے حیدر علی خان سپین، برطانیہ اور کئی دوسرے مُلکوں کے دَورے کر چکے ہیں۔ مجھے اُن سے گفتگو کرکے اچھا لگا۔ اُن کے 12سالہ بیٹے ابراہیم بدر اور رائے نیاز احمد خان کھرل کے15 سالہ بیٹے طاہر امین خان سے مِل کر بھی جو پنجابی کے بجائے اُردو اور انگریزی بولتے ہےں۔ مُجھے نہیں معلوم کہ ہمارا کل کا ہِیرو کون ہو گا؟ ممکن ہے ابراہیم بدر، طاہر امین خان یا حیدر علی چوہان میں سے کو ئی ایک یا یہ تینوں کسی چوتھے کو پاکستان کا ہِیرو بنتے اور اُبھرتے دیکھیں؟۔