انسانی تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سالوں سے جب بھی کسی انسان کا شعور آنکھ کھولتا ہے تو اس کے ذہن میں اس طرح کے سوالات ضرور جنم لیتے ہیں۔۱ یہ کائنات کیسی ہے؟2 کیا کوئی ہستی اس کائنات کو پیدا کرنے والی ہے؟3 کیا یہ کائنات خودبخود چل رہی ہے یا اسے چلانے والی کوئی ہستی یا ہستیاں موجود ہیں؟4 کیا انسان اس ہستی یا ان ہستیوں تک پہنچ سکتا ہے؟ 5 کیا انسان اس ہستی یا ان ہستیوں سے کوئی رابطہ پیدا کر سکتا ہے؟6 کیا انسان اس ہستی یا ان ہستیوں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟7کیا انسان کا اس کائنات سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟صوفیا اور فلسفیوں نے ان گتھیوں کو سلجھانے کیلئے بہت دماغ سوزی کی ۔ مگر وہ اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے لیکن خود اس ہستی نے پہلے ہی انبیاء کے ذریعے ایسے ذرائع پیدا کر دیئے جنہوں نے مذہب کے راستے ان بنیادی انسانی سوالوں کے ایسے جوابات مہیا کرنے کا اہتمام کیا جس کے سبب نہ صرف قبیلوں اور شہروں بلکہ قوموں کی کایا پلٹ دی۔ کروڑوں لوگوں میں سیرت اور اخلاق کی ایسی روح پھونک دی کہ تاریخ کسی دوسرے ذریعے سے انسانوں میں شعورِ ذات و شعور ِ کائنات پیدا نہ کر سکی۔اقبال نے ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ کے ذریعے نہ صرف اسلامی ثقافت اور یورپی ثقافت کے باہمی رشتوں کا ذکر کیا ہے بلکہ مسلمانوں کی پسماندگی اور یورپ کی ترقی کے اسباب بھی گنوائے ہیں۔ اسکے بعد مغربی تہذیب اور مسلمانوں کی نئی نسل کے درمیان ایک ایسا صحت مند رابطہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک زمانے میں یورپین لوگ دنیائے اسلام سے فیض حاصل کرتے تھے لیکن آج صورتحال اسکے برعکس ہے۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو کہ ہر لحاظ سے انسانی زندگی کے ہر گوشے پر پوری طرح محیط ہے۔
اسلامی ثقافت کے بنیادی تصورات بیان کرتے ہوئے اقبال نے ختم ِ نبوت کی حقیقت پر خاص طور پر روشنی ڈالی ہے۔ علامہِ ختم نبوت کو حریتِ ذہنی اور آزادیء فکر کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں انکے نزدیک عقیدہ ختمِ نبوت ہر قسم کے ذہنی اور روحانی استحصال کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے۔ فطرت اور تاریخ سے سبق حاصل کرنا بھی علامہ کے نزدیک اسلامی ثقافت کی ایک خصوصیت ہے۔ تاریخ ساز عہد کے شروع ہی میں قیصر و کسریٰ پر فتوحات حاصل کرنے کے باعث ایران اور روم کی تہذیبوں سے اسلامی ثقافت کا واسطہ پڑا۔ یونانی فلسفہ کی ان گنت کتب عربی میں ترجمہ کرائی گئیں۔ مسلمانوں کے ذہین طبقہ نے ان کتب کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے کیا۔ مگر کسی طور پربھی یہ کتب اسلامی ثقافت کے لیے مفید ثابت نہ ہو سکیں۔
اسی مضمون کو علامہ نے ’’روحِ ارضی آدمؑ کا استقبال کرتی ہے۔ ‘‘میں مختلف طریقے سے بیان کیا ہے۔
اقبال قرآن کی دعوت تدبر و تفکر سے یہ نتائج اخذ کرتے ہیں کہ:۔
’’ٹھوس حقائق پر بار بار توجہ کی اس دعوت کے ساتھ ساتھ جس کی قرآن ِ مجید نے تعلیم دی اور جس کے بعد اسلامی تہذیب کی حقیقی روح برسر پیکار آئی۔ حتیٰ کہ تہذیب ،مشاہدات اور واردات کی قدروقیمت کا فیصلہ کرنے کیلئے ہمیں دیکھنا پڑیگا کہ انکے زیرِ اثر کس قسم کی انسانیت نے جنم لیا۔ وہ تہذیب و تمدن کی کیا دنیا تھی؟ جس کا ظہور ان کی دعوت پر ہوا۔ علامہ کے اس خطبہ میں بھی ہمارے پیش نظر یہی امر ہے اگر ہم ان تصورات کو نگاہِ عمیق سے دیکھیں جو اسلامی تہذیب و ثقافت میں کار فرما ہیں۔ تو ہم اس سلسلِۂ افکار کی تہہ تک پہنچنے کے قابل ہو سکتے ہیں اور اس طرح اس روح کی تھوڑی سی جھلک بھی نظر آجائیگی جو ان میں کار فرما رہی لیکن اس سے پہلے علامہ کے اس خطبے کے اہم داخلی و بنیادی نکات کو پیش کرنا ضروری ہے تاکہ مذکورہ خطبے کی صحیح روح اور ثقافتی قدروقیمت پورے طور پرقارئین کے سامنے آسکے۔1 نبوت اور ولایت کا فرق 2 وحی اور الہام کے مختلف مدارج 3 عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت 4 مساوات ِ انسانی 5 اسلام میں عقل کی اہمیت 6 اسلام میں مطالعہ النفس و آفاق کی یکساں اہمیت 7 ذرائع علم 8 یورپی تہذیب پر اسلامی اثرات 9 مسئلہ زمان و مکاں 10 مسئلہ ارتقاء 11 ابنِ خلدون کا نظریۂ تاریخ 12 اسلامی تاریخ کاعالمگیر پہلو 13 اسلامی ثقافت کے بارے میں اسپنگلر کی رائے اور اس پر تنقیداسلامی ثقافت کی دوسری بڑی خصوصیت انکے نزدیک مساوات ِ انسانی ہے۔
سید نذیر نیازی علامہ کے اس خطبہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’قرآن مجید نے لفظ وحی کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وحی خاصہِء حیات ہے اور ایسا ہی اہتمام جیسے زندگی۔۔۔بنی نوع انسان کے علم صغر سنی میں ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفی توانائی کے نشو ونما نے شعور کی وہ صورت اختیار کر لی جسے ہم نے شعور ِ نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘اگرچہ مغربی تہذیب کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس سے اسلامی تہذیب و ثقافت کے اثرات کا پتہ نہ چلے لیکن اس کا سب سے بڑا روشن ثبوت اس طاقت کے ظہور سے ملتا ہے جو عصرِحاضر کی مستقل اور نمایاں ترین قوت کا سرچشمہ ہے۔
’’مسئلہ ارتقاء کے متعلق مسلمان مفکرین نے جو خصوصیات پیش کی ہیں، یونانی اور یورپی فلسفی درحقیقت اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اگر ہم ابن ِ مسکویہ اور عراقین کے افکار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب ریاضی، طبیعات کے جدید تصورات کا کسی کو علم نہ تھا ان روشن خیال مسلمانوں نے ارتقائے حیات اور حقیقت امکاں کے بارے میں اپنے باطنی مشاہدات کی توضیح کس رنگ میں کی، اسی طرح علامہ نے اپنے زیر ِ نظر خطبہ میں قرآن حکیم کی روشنی میں ابن ِ خلدون کے نکتہ نظر کی وضاحت میںتاریخ کے اسلامی تصور پر بھی نہایت گراں قدراور جامع خیالات کا اظہار کیا ہے جس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کی نگاہ میں قوموں کے عروج و زول کی داستانیں محض گزرے ہوئے واقعات اور قصے کہانیاں نہیں بلکہ انکے اندر زندگی کے مقاصد اور اُن مقاصد کے حصول کی سعیِ ٔ مسلسل کا سراغ ملتا ہے جو ہمیں آگے بڑھنے کیلئے مدد دے سکتاہے۔ اسکے ساتھ غافل اقوم کیلئے عبرت پکڑنے کا ایک سامان بھی ۔اسی طرح قرآن کا ارشاد ہے۔‘‘’’اور ہم نے تمہیں شخص واحد سے پیدا کیا ‘‘انسانی مساوات کا خیال اگرچہ دوسری تہذیبوں میں بھی ملتا ہے مگر یہ کہ پوری نوع ِ انسانی ایک جسم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام کے سوا کوئی تہذیب و ثقافت اس کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اس اصول کو اگر ثقافت نے عملاً سچ کر دکھایا ہے تو وہ صرف مسلمانوں کی ثقافت ہے۔جہاں تک نظریہء پاکستان اور اسلامی ثقافت کی تشکیل کا تعلق ہے ہمیں یہ کہنے میں گریز نہیں کہ مصور ِ پاکستان ہونے کی حیثیت سے علامہ کے ذہن میں نئے مسلم وطن کیلئے ایک مخلص ثقافتی تشکیل ِ نوکا تصور موجود تھا ۔ وہ قرآ ن ِ حکیم کو منبع علوم تصور کرتے تھے۔ ان کا نظریہ ثقافت بھی قرآن ہی سے ماخوذ ہے۔ ایک جانب وہ اسلام کے مثالی تصورات کی تخلیقی انکشاف کیلئے کوشاں تھے تو دوسری جانب وہ انہیں علمی زندگی کے متحرک قالب میں ڈھالنے کی جدوجہد میں مصروف رہے ۔ وہ فکر ذات الہیہ کے حوالے سے دیکھتے تھے۔ اور جملہ حقائق کی تشریح کیلئے بھی یہ زینہ استعمال کرتے تھے۔ تحریک ِ پاکستان علامہ کی زندگی میں ہی شروع ہو چکی تھی اور تحریک کے فلسفہ کا نچوڑ محض اس نعرے میں مستو ر تھا۔پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہٰ الااللّٰہ۔ حضرت علامہ توقوم کو بتا گئے تھے کہ مسلمان کی زندگی ’’نہایت اندیشہ اور کمال جنون‘‘ کا دوسرا نام ہے۔ یہ اور بات ہے کہ 1940ء سے لے کر آج تک اس زندگی کا نقشہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ ایسا کیوں ہوا؟ علامہ کے اس خط میں نظر آتا ہے جو انہوں نے 29جنوری 1921ء کو ڈاکٹر نکلسن کے نام لکھا تھا۔’’اسلام کی یہ حالت کبھی نہ ہوتی اگر امت ِ محمدؐ ایک نکتہ سمجھ لیتی کہ ملک گیری میں لذت ہے مگر یہ ہمیں دھوکا بھی دیتی ہے۔ دنیائے اسلام پر اسلام کی روشنی پھیلتی گئی مگر معاشرہ کی اقتصادی اور جمہوری تنظیم کے اصول بروئے کار نہ لائے جا سکے۔ سلطنت تو بلاشبہ عظیم الشان ہو گئی مگر نظریات ایک بار پھر دور ِ جہالت کے سانچوں میں ڈھل گئے۔ یوں نگاہیں اسلام کے اہم ترین امکانات سے ہٹ گئیں‘‘۔
پاکستان چکی کے ان دو پاٹوں میں ایسا پسا کہ پاکستان ربع صدی سے بھی کم عرصہ میں ریزہ ریزہ ہو کر رہ گیا۔ بقول اقبال
دردل او آتش سوزندہ نیست
مصطفیٰ در سینہ او زندہ نیست
آمریت اور ملائیت کے اس گٹھ جوڑ سے قیصر یت لوٹ آئی اور کروڑوں افراد کی یہ قوم آج اقوام عالم میں اہم مقام حاصل کرنے سے محروم ہے۔ بجا طور پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب نظام ِ حیات ہی غیر اسلامی ٹھہرا تو ثقافت اسلامی کیسے جنم لے گی؟ بلوچستان کے سردار ، سرحد کی خواتین، پنجاب کے جاگیر دار اور سندھ کے وڈیرے ثقافت ِ اسلامی کا جنم کیوں پسند کرینگے؟
نتیجہ ظاہر ہے کہ بھائی بھائی کا گلا کاٹنے لگا۔ موالفت و موانست قصہ ء پارینہ ہو گئیں۔ خودنگری اور خود شکنی کے تصورات اوجھل ہوئے تسخیر کائنات کے خواب چکنا چور ہوئے اقبال کا کہنا ہے :۔بحیثیت ایک کلچرل قوت کے اس علاقے کے مسلمانوں کی بقاء کا انحصار ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرنے پر ہے‘‘ تسلیم کہ پاکستان کی شکل میں ’’مرکزیت ‘‘ تو قائم ہو گئی لیکن ہم تو سندھی اور پنجابی بن گئے۔ پٹھان اور بلوچ بن گئے۔ مہاجر اور سردار بن گئے لیکن وہ مسلمان نہ بن سکے جو نبی آخر زماں صلعم کے اُسوۃ حسنہ کے پیروکار تھے۔ سوال یہ ہے کہ ویسے مسلمان نہیں بن سکے تو اسلامی ثقافت کی روح کو کیسے جانچیں گے؟