علامہ اقبال اور مولانا عبدالمجید سالک

Apr 21, 2015

ڈاکٹر محمد سلیم

مولانا عبدالمجید سالک ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ انکی نثر طنزومزاح کے گلشن کا ایسا سدا بہار پھول ہے جس کی خوشبو سے ساری فضا مہکتی ہے۔ شوخی ان کا مزاج ہے اور ندرت خیال انکے ذہن کی رفعت۔ وہ بذلہ سنجی میں باکمال اور بے مثال تھے۔ ممتاز صحافی، فکاہات کی سلطنت کے بے باک حکمران، مترجم اور شاعر بھی۔ لیکن انکے کالم ’’افکاروحوادث‘‘ کی غیر معمولی شہرت سے انکی باقی خوبیاں ثانوی حیثیت اختیار کر گئیں۔ ’’افکاروحوادث‘‘ میں شگفتگی، سوچ کی انفرادیت اور زبان کی سادگی و سلاست کا امتزاج ان کی غیر معمولی ادبی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ البتہ سیاسی معاملات میں وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر رکھتے تھے اور کسی قسم کی اخلاقی قدروں کے پابند نہیں تھے۔
عبدالمجید سالک 13 یا 14 دسمبر 1894 کو بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ انکے والد کا نام منشی غلام قادر تھا۔ ابتدائی تعلیم پٹھان کوٹ میں حاصل کی۔ انہوں نے اپنی چند ابتدائی غزلیں 1910 میں ( عمر16 سال) مرزا داغ دہلوی کے ایک شاگرد رسارامپوری کو دکھائیں لیکن 1912 کے آغاز میں رسا کا انتقال ہو گیا۔ اسکے بعد کسی اور سے اصلاح نہیں لی۔ 22 جون 1911 کو لندن میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاج پوشی ہوئی۔ اسی دن ہندوستان میں بھی جلسے ہوئے۔ تحصیلدار کی فرمائش پر اس سلسلے میں پٹھان کوٹ کے جلسے میں انہوں نے بھی ایک نظم پڑھی۔ 10 مئی 1912 کو ان کی شادی ہو گئی۔  
شفیع عقیل کیساتھ ایک انٹرویو میں مولانا عبدالمجید سالک نے کہا:۔ فنون لطیفہ سے مجھے مصوری، موسیقی، سنگ تراشی کسی کا شوق نہیں رہا۔ شاعر کے ساتھ بھی یوں ہی سا تعلق رہا۔ صحافت ہر چیز پر غالب آ گئی۔ ڈاکٹر اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد دونوں نظرونثر کے امام تھے۔ انہوں نے میرے ذوق پر بھی اثر ڈالا اور حسیات اسلامی کو بھی تقویت بخشی۔ میں ادب میں جمود کا قائل نہیں۔
وہ 27 دسمبر 1959 کو لاہور میں وفات پا گئے۔
عبدالمجید سالک لکھتے ہیں: ڈاکٹر اقبال سے تو روز بروز تعلقات بڑھ رہے تھے۔ اگرچہ 1913 میں بھی متعدد بار ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن اسکے بعد دو سال پٹھان کوٹ میں قیام کی وجہ سے انقطاع ہو گیا۔ 1915 کے اواخر میں تجدید ہوئی اور خوب صحبتیں رہنے لگیں۔  
عبدالمجید سالک رقم طراز ہیں: (جب ’’زمیندار‘‘ سے علیحدہ ہو کر ہم نے اپنا اخبار نکالنے کا ارادہ کیا تو) ایک شام علامہ اقبال کے ہاں بیٹھے تھے کہ اخبار کا نام ’’انقلاب‘‘ تجویز ہوا اور علامہ نے اسکے پہلے پرچے کے صفحہ اول کیلئے نظم لکھی جس میں سرمایہ دار مزدور کی کشمکش کا ذکر بھی کیا جو حقیقت میں ’’انقلاب‘‘ کے اجرا کا باعث ہوئی:
خواجہ از خون رگ مزدور سازولعل ناب
از جفائے وہ خدایاں کشت دہقاناں خراب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب
حکومت برطانیہ اپنی سلطنت میں سیاسی، فوجی، علمی، ادبی خدمات کے لحاظ سے ہر سال خطابات عطا کرتی تھی۔ یکم جنوری 1923 کو حکومت نے علامہ اقبال کے علمی مقام کے پیش نظر انہیں سر کا خطاب دیا لیکن مسلم عوام نے اسے پسند نہ کیا۔ انکے دلوں میں اقبال کا جو مقام تھا وہ ایسے خطابات کا محتاج نہ تھا۔
سر کا خطاب ملنے پر انکے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے انہیں لکھا کہ شاید اب آپ آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کر سکیں۔ اس پر علامہ اقبال نے یہ جواب تحریر کیا:
’’قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکی۔ انشااللہ اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اس کا دل مومن ہے‘‘۔
حقیقت یہی ہے کہ خطاب حاصل کرنے کے بعد اقبال کی آزادی اظہار میں اضافہ ہی ہوا۔ اقبال کو سر کا خطاب ملنے پر انکے دوست اور فارسی کے معروف شاعر گرامی نے انہیں لکھا:  ’’اقبال کو سر کا خطاب ملا۔ ایک جہان شوردرسر ہے۔ بے معنی شور ہے۔ اس شور سے بوئے حسد آ رہی ہے۔ گویا آپ کے سر نے خیرہ سروں کو سر بزانو کر دیا‘‘۔  پھر یہ رباعی بھی کہی:
ہر نکتہ علامہ وفا آہنگ است
ہر حرف کلید حکمت و فرہنگ است
اقبال سر اقبال شد از جوہر علم
حاسد عو عو کند علاجش سنگ است
(ترجمہ:علامہ کا ہر نکتہ وفا سے ہم آہنگ ہے اور ہر حرف علم و حکمت کی کنجی ہے۔ اقبال اپنے جوہر علم کی بدولت سر اقبال ہو گئے۔ حاسد بھونکتا ہے تو اس کا علاج پتھر ہے) حزیں کاشمیری لکھتے ہیں: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کی پالیسی یونینسٹ نواز پالیسی تھی اور ادھر سے انکی مالی معاونت بھی ہوتی تھی۔ یہ اخبار حکومت افغانستان کی، جو اکثر و بیشتر پاکستان کیخلاف زہر اگلتی رہتی تھی۔ مدح سرائی بھی کرتا تھا۔ جب رفتہ رفتہ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کی مالی معاونت میں کمی آتی گئی تو دو تین بار شیخ مبارک علی نے بھی اسکی مالی معاونت کی۔ مولانا سالک جب کبھی دکان پر تشریف لاتے تو مجھ پر انکے آنے کا مقصد فی الفور واضح ہو جاتا۔ پھر ادھر ادھر سے بھی پتہ چل جاتا کہ انکے آنے کی غرض وغایت کیا تھی۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں: اور باتوں کے علاوہ، ’’افکاروحوادث‘‘ میں کانگریس اور اس کے زعما پر پھبتیاں کسی جاتیں یا ان لوگوں پر چوٹیں ہوتیں جو کانگرس کے قریب اور سرکار کے حریف تھے۔ ’’انقلاب‘‘ کے اس کردار کا دفاع نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا مزاج حکومت کے قریب رہا۔ لیکن زبان کا ذائقہ جو انکے ہاں تھا اور کہیں بھی نہیں تھا۔ وہ الفاظ سے مزاح کو پیدا نہیں کرتے تھے بلکہ ظرافت انکے دماغ سے اگتی تھی۔ شورش کاشمیری یہ بھی لکھتے ہیں: جب خواجہ ناظم الدین وزیراعظم ہوئے تو مجید سالک (پرنسپل انفرمیشن آفیسر) کی تحریک پر حکومت پاکستان کی وزارت اطلاعات سے منسلک ہو کر اٹھارہ سو روپے ماہوار پر کراچی چلے گئے۔ (یاد رہے کہ ان دنوں یونیورسٹی لیکچرار کی تنخواہ تقریباً 250 روپے ماہوار تھی) وہاں فرضی ناموں سے حکومت کی پالیسیوں کے حق میں مضامین لکھتے رہے۔ بعض سرکاری مطبوعات کے ترجمے کئے۔ خواجہ ناظم الدین کی تقریریں لکھیں۔ ملک غلام محمد کا زمانہ آیا تو اسی خدمت پر مامور رہے۔ چار سال بعد وہاں سے لوٹے۔ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک!
سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: 6 فروری 1938 کو نواب شاہ نواز ممدوٹ تشریف لائے۔ میں نے دیکھا کہ باہر صحن میں حضرات سالک و مہر کھڑے ہیں جیسے کسی کا انتظار ہو۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں ایک گاڑی صحن میں داخل ہوئی اور نواب مظفر خاں، سیدمحمدعلی جعفری، محسن شاہ اور دو ایک اور حضرات گاڑی سے نکل کر برآمدے میں داخل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ شہید گنج کے سلسلے میں اپیل کا مسئلہ مشورہ طلب ہے۔ حضرت علامہ اٹھے اور نشست گاہ میں تشریف لے گئے۔
اگلے دن ارشاد ہوا: کل یہ لوگ بہت دیر تک بیٹھے رہے۔ ان کا خیال پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کا ہے لیکن میں نے انکی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ میں نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں اس کیخلاف ہوں۔
اتنے میں چودھری (محمدحسین) صاحب آ گئے۔ وہ بڑے برافروختہ معلوم ہوتے تھے۔ السلام علیکم کے بعد انہوں نے ’’انقلاب‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ تپائی پر رکھ دیے اور کہنے لگے: ذرا دیکھیے تو، ’’انقلاب‘‘ نے کیا خبر شائع کر دی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کل کا مشورہ ایک چال تھا اور وہ یہ کہ جاوید منزل کی اس ملاقات کو جلسے کا نام دے کر یہ ظاہر کیا جائے کہ آپ بھی پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کے حق میں ہیں۔ اس پر حضرت علامہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے: ’’ہذا بہتان عظیم‘‘… فرمایا: چودھری صاحب ! اس خبر کی فوراً تردید ہو جانی چاہئے۔ میں ہرگز اپیل کے حق میں نہیں ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ حضرات دیر تک بیٹھے آپس میں مشورہ کرتے رہے لیکن میں نے معذرت کر دی تھی۔ میں تو جلد ہی اٹھ کر پلنگ پر آ لیٹا تھا۔ پھر جب یہ حضرات گئے تو اتنا ضرور کہتے گئے کہ ہماری رائے اپیل کرنے کی ہے لیکن میں نے مکرر اپنی رائے کا اظہار کر دیا تھا کہ میں اس کیخلاف ہوں۔ حضرت علامہ کو رنج تھا کہ ان حضرات نے جو کل مشورے کیلئے آئے تھے، محض اپنی مصلحت جوئی اور مفاد پسندی کی خاطر ایک ایسی بات ان سے منسوب کر دی جس پر انہوں نے ہرگز ہرگز رضا مندی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ایسی غلط بیانی کیوں کی؟ اس جھوٹ سے فائدہ؟ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں: علامہ اقبالؒ نے جس دن سے خار راز سیاست میں قدم رکھا، اپنے نصب العین کے معاملے میں ذرہ بھر مفاہمت بھی گوارا نہیں کی۔ وہ اول و آخر ظاہر و باطن مسلمان تھے اور مسلمانوں کی جداگانہ ملی حیثیت کے سوا اور کسی لائن پر سوچنے کے عادی ہی نہ تھے۔ چنانچہ 1926ء سے لے کر جب وہ پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تادم آخر مسلمانوں کے ملی مطالبات اور جداگانہ انتخاب کے حامی رہے۔ ایک دفعہ سر محمد شفیع جیسے بزرگ بھی اس معاملے میں تھوڑی دیر کے لئے متزلزل ہو گئے تھے لیکن اس راستے پر اقبالؒ کا قدم کبھی نہ ڈگمگایا۔ انہوں نے نہرو رپورٹ کی مخالفت کی، سائمن کمیشن سے تعاون کیا، آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے انعقاد کا بندوبست کیا، دونوں لیگوں کو دوبارہ متحد کرنے کے لئے کوشش کی۔ تمام اقدامات کا مطلب صرف یہ تھا کہ مسلمان اپنی علیحدہ اور جداگانہ ملی ہستی کو محفوظ کرنے کے لئے یک سو اور متحد ہو جائیں اور قومیت متحدہ کے دام فریب میں گرفتار نہ ہونے پائیں۔ پھر آخر میں 1930ء کے اجلاس مسلم لیگ میں مسلمانوں کو ایک نصب العین بھی دے دیا جس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں ظاہر ہے۔

مزیدخبریں