بھارتی کلاسیکی موسیقی ہِندو مذہب کا حِصّہ ہے۔ اُن کے یہاں سُر اور تال میں بھجن گا کر دیوتائوں کو خوش کرنے کا رواج ہے۔ ہندوستان میں مُسلمان تُرکوں، افغانوں اور مُغلوں نے اپنی اپنی حکومتیں قائم کیں تو مُسلمان / موسیقاروں نے بھی کلاسیکی موسیقی سیکھی اور نام پیدا کِیا۔ ہندی / اردو فِلموں میں ’’ہلکی پُھلکی موسیقی‘‘ کلاسیکی موسیقی ہی کی دین ہے۔
’’ الطاف بھائی سُر میں گایا کریں!‘‘
کہتے ہیں کہ گانا اور رونا کِسے نہیں آتا؟ جِس شخص کو گانا نہ بھی آتا ہو تو وہ ’’باتھ روم سنگر‘‘ ضرور ہوتا ہے۔ ایسے لوگ خواہ اپنے سارے ’’گھرانے‘‘ کو بور کریں تو یہ اُن کا گھریلو معاملہ ہے لیکن اگر کوئی بے سُرا شخص گھر سے باہر گائے تو اُس سے ’’نقصِ امن کا خطرہ‘‘ پیدا ہو جاتا ہے۔ سیاستدانوں میں خان عبدالولی خان اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دوستوں کی محفل میں گاتے تھے/ ہیں لیکن قائدِ تحریک جناب الطاف حسین جب لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک اپنے ’’کروڑوں پیروکاروں‘‘ سے خطاب کرتے ہیں تو انہیں فلمی گِیت بھی سناتے ہیں۔
جناب عمران خان نے جناب الطاف حسین کے بارے میں کہا کہ ’’وہ اپنی تقریر میں رونا اور گانا بھی شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ جواب میں الطاف بھائی نے کہا کہ ’’جس شخص کو سُر سے محبت نہیں وہ انسان ہی نہیں۔‘‘ درست فرمایا لیکن جب کوئی گانے والا بے سُرا گائے تو سامعِین/ حاضرِین/ ناظرِین کی سُر سے محبت ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ ’’عُلمائے موسیقی‘‘ نے ہر راگ / راگنی کے گانے کا وقت مقرر کر رکھا ہے کیونکہ ’’بے وقت کا راگ اور بے وقت کی راگنی‘‘ سماعت پر گراں گزرتی ہے۔ عمران خان میانوالوی کو عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کے گانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اِس لئے کہ وہ تقریریں نہیں کرتے صرف گاتے ہیںا ور دوسری بات یہ کہ عیسیٰ خیلوی صاحب سُر میں گاتے ہیں۔ میری الطا ف بھائی سے درخواست ہے کہ وہ بے وقت نہ گایا کریں اور جب گائیں تو سُر میں گایا کریں۔ نامور گایک حامد علی خان صاحب میرے چھوٹے بھائی محمد علی چوہان کے دوست ہیں۔ اگر الطاف بھائی پٹیالہ گھرانے کے حامد علی خان صاحب کے ائر ٹکٹ اور لندن میں ان کے قیام و طعام کا بندوبست کر دیں تو وہ الطاف بھائی کو اپنا شاگرد بنانے کو تیار ہیں۔
"LOVE EXPORT POLICY OF CHINA!"
عوامی جمہوریہ چِین کے صدر عِزّت مآب شی چِن پِنگ کی پاکستان آمد پورے پاکستان کے لے بہت بڑا اعزاز ہے، چِین دُنیا کا واحد مُلک ہے جِس کے بارے میں حکومت، حزبِ اختلاف، زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ اور سب سے بڑی بات کہ، پاکستان کے عوام، چِینی قیادت اور عوام کو اپنا سمجھتے ہیں اور چِین کے حکمران اور عوام بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو۔ ’’پیغمبرِ انقلابؐ‘‘ نے مُسلمانوںکو ہدایت کی تھی کہ ’’عِلم حاصل کرو خواہ تمہیں چِین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘‘ اُس وقت چِین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور لکڑی کے ’’BLOCKS‘‘ (ٹھپّوں) کے ذریعے کتابیں چھپنا شروع ہوگئی تھِیں۔ یقیناً ’’مدِینۃ اُلعِلم‘‘ کو اس کا ادراک تھا۔
عوامی جمہوریہ چِین کے قائدِ انقلاب چیئرمین مائوزے تنگ اور قائداعظم میں ایک بڑی قدرِ مشترک یہ تھی کہ دونوں قائدِین کو دولت جمع کرنے کا شوق نہیں تھا۔ چیئرمین مائوزے تنگ نے انتقال کے وقت 6 جوڑے کپڑے، ایک لائبریری اور چند ڈالرزچھوڑے تھے۔ اس سے پہلے قائدِاعظم نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر قوم کے نام وقف کر دِیا تھا۔ عوامی جمہوریہ چین میں عوام کو ’’سوشلزم‘‘ اور اُس کے بعد ’’اوپن ڈور پالیسی‘‘ کے ذریعے فائدے پہنچائے گئے لیکن ہمارے کسی بھی حکمران نے قائداعظم کی خواہش کے مطابق پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے پر توجہ نہیں دی۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے وقت عوامی جمہوریہ چِین نے پاکستان کی بھرپور مدد کر کے ہر پاکستانی کا دِل موہ لِیا تھا، اس کے بعد ہر دُور میں پاکستان اور چین کی دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ ہمارے انجینئروں اور دوسرے شعبوں کے ماہرین نے چین سے بہت سے علوم و فنون سیکھے لیکن ہمارے حکمرانوں نے چِین کے حکمرانوں کی طرح سادگی اختیار نہیں کی۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی خاندانی پارٹیاں ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کا کوئی بھی صدر / وزیراعظم کسی بین الاقوامی ’’FORUM‘‘ پر اپنی قومی زبان (چینی) میں تقریر کرتا ہے۔ اُن کے وفود کے ارکان بھی کم ہوتے ہیں۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو مائوزے تنگ سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو اُس کا ’’چیئرمین‘‘ منتخب ہونا پسند کِیا۔ یعنی چِین میں ’’چیئرمین مائوزے تنگ‘‘ اور پاکستان میں ’’چیئرمین بھٹو‘‘۔ جنابِ بھٹو چیئرمین مائوزے تنگ کی نقل میں پتلون کے اوپر بند گلے کا کوٹ اور سَر پر ’’مائو کیپ‘‘ سجا کر عام جلسوں میں (چیئرمین مائو کی طرح ) دنوں ہاتھ بلند کر کے تالیاں بجایا کرتے تھے۔ اقتدار سے پہلے بھٹو صاحب نے غریبوں کے حق میں ’’انقلاب‘‘ لانے کا وعدہ کِیا تھا لیکن اقتدار میں آ کر انہوں نے جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور اِبن اُلوقت لوگوں کو اُن کے ’’لاکھوں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل کر لِیا۔ یہ عوام سے جنابِ بھٹو کی بے وفائی کا عندیہ تھا کہ وہ اور اُن کے دونوں بیٹے اور بیٹی بھی ناگہانی موت کا شکار ہوئے۔
عزتِ مآب شی چِن پِنگ کی تشریف آوری کے دِن اخبارات میں وفاقی وزیر خزانہ جناب محمد اسحاق ڈار کا بیان شائع ہوا ہے کہ ’’پاکستان دُنیا کی 18ویں مُعیشت (ECONOMY) بن گیا ہے، مبارک ہو!۔ کاش ڈار صاحب یہ بھی بتا دیتے کہ اس طرح پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کو کیا فائدہ ہُوا؟ وزیراعظم میاں نواز شریف نے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے قبل یوم تکبیر کے موقع پر 28 مئی 2013ء کو ایوانِِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں جناب مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کِیا تھا کہ ’’مَیں اپنی وزارتِ عظمیٰ کے تیسرے دَور میں ’’معاشی دھماکا‘‘ کروں گا۔ جنابِ وزیراعظم کے اِس وعدے کو دو سال پورے ہونے کو ہیں ’’معاشی دھماکہ‘‘ کب ہوگا؟
وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کے پاس ’’وزارتِ نجکاری‘‘ کا اضافی چارج بھی ہے ۔ 20 اپریل کے قومی اخبارات میں اُن کا یہ اعلان بھی شائع ہوا ہے جِس میں جنابِ ڈار فرماتے ہیںکہ ’’ہم مزید 35 اداروں کی نجکاری کریں گے۔‘‘
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرِشمہ ساز کرے
سوویت یونین کسی دُور میں دوسری بڑی عالمی سُپر پاور تھی لیکن وہ دوسرے ملکوں میں ’’انقلاب‘‘ ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے کالعدم ہو گئی۔ عوامی جمہوریہ چِین نے کسی بھی دَور میں انقلاب ایکسپورٹ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’سوشلزم کے مخالف‘‘ ہمارے علماء نے بھی چِینی سوشلزم/ کمیونزم کے خلاف کُفر کا فتویٰ نہیں دِیا۔ عوامی جمہوریہ چِین تو اپنی ’’LOVE EXPORT POLICY ‘‘ کے باعث محبت کرنے والوں کے دِل موہ رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حدیثِ رسول مقبولؐ کی روشنی میں پاکستان کے حکمران، حزبِ اختلاف کے قائدین، مختلف شعبوں کے ماہرین ، مختلف مسالک کے علمائے کرام اور دوسرے بالادست طبقے دوست ملک چِین سے اپنے عوام سے محبت کرنے کا عِلم (اور فن) بھی سِیکھ لیں؟
"LOVE EXPORT POLICY OF CHINA!"
Apr 21, 2015