آرمی چیف جنرل راحیل شریف بلاشبہ اب محبوب ترین انسان ہیں بلکہ محبوب ترین لیڈر ہیں۔ لوگوں نے انہیں نجات دہندہ سمجھ لیا ہے۔ لوگ بے چارے اب تک کئی لوگوں کو نجات دہندہ سمجھتے رہے ہیں مگر انہیں نجات نہیں ملی۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلا آدمی ہے جو جرنیل لگتا ہے مگر اس نے بھی سیاستدانوں کی طرح بیان دینا شروع کر دئیے ہیں۔ جنرل صاحب آپریشن ضرب عضب دلیری نیک دلی اور کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپریشن ضرب غضب کب ہو گا؟
کراچی کی روشنیاں بہت حد تک واپس دلوائیں چھوٹو گینگ کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ اور اب کرپشن کا خاتمہ کیوں نہیں ہو سکتا کیوں کسی تفریق کے بغیر بڑوں اور چھوٹوں کا کڑا اور مکمل احتساب نہیں ہو سکتا۔ چھوٹو گینگ کے بعد سیاست اور حکومت کے نو گینگز کے خلاف ایکشن کیوں نہیں ہو سکتا۔ کیوں بیرون ملک سے اثاثے واپس نہیں آ سکتے کیوں باہر بلاجواز بزنس بے شمار کرنے کو نہیں روکا جا سکتا۔ کیوں انصاف نہیں ہو سکتا کیوں قانون سب کے لئے برابر نہیں ہو سکتا۔ کیوں طاقتور اور کمزور کو ایک قطار میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں۔ کیوں آخر کیوں؟
آرمی چیف نے بیان دیا ہے اور ہم نے بیانات بہت سنے ہیں۔ حکمران سیاستدان اور اب جرنیل بیانات ہی دیتے چلے آ رہے ہیں۔ فوجی حکومتیں بھی رہی ہیں وہ سیاسی حکومتوں جیسی تھیں۔ کب حکومت اور حکمت میں فاصلے ختم ہوں گے۔
کرپشن کے خاتمے کے لئے پرویز رشید سیاست کے تسلسل کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سیاست ہی میں کرپشن اس انتہا کو پہنچ گئی ہے جب حضرت نوحؑ کے زمانے میں برائی پہنچ گئی تھی اور پھر طوفان نوح آیا تھا۔ آرمی چیف کی اس بات سے اتفاق ہے کہ بلاامتیاز احتساب ضروری ہے فوج حمایت کرے گی۔ یہ احتساب سیاسی حکومتوں میں تو شروع ہو گا نہیں فوج کس کی حمایت کرے گی۔ فوج حمایت نہ کرے۔ فوج مخالفت کرے ان کے لئے جن کے خلاف احتساب قومی ضرورت ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور غضب۔
میں نے لکھا تھا کہ ایک وزیرستان اسلام آباد میں بھی ہے جہاں وزیر رہتے ہیں۔ وہاں کب آپریشن ہو گا۔ وہاں تو پوسٹ مارٹم کی ضرورت بھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سیاسی حکومتیں نہ احتساب کر سکتی ہیں نہ کرپشن ختم کر سکتی ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہو گی کرپشن کئی قسم کی ہوتی ہے۔ دہشت گردی بھی کئی قسم کی ہوتی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم آرمی چیف کے بیان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ وہ پرویز رشید کو بھی سمجھائیں جو بھی ذرا مخالفانہ بیان آتا ہے تو انہیں نواز شریف کی حکومت خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ جنرل باجوہ پاک فوج کا وزیر اطلاعات ہے۔ مگر وہ پرویز رشید جیسے وزیر اطلاعات نہیں ہوں گے۔
عمران نے کہا کہ پورا پاکستان پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہے۔ تو فوج جو کچھ کرے گی پاکستان کے سارے لوگ اس کا ساتھ دیں گے۔ صرف فوج ہی کرپشن سے نجات دلا سکتی ہے سب سیاستدان یہی کہہ رہے ہیں۔ جب سب قوم چاہتی ہے تو پھر فوج کچھ کرکے دکھائے بھی۔ میں دوبارہ کہہ رہا ہوں پرویز رشید تسلی رکھیں۔ میں فوج کے سیاست میں آنے کے حق میں نہیں ہوں مگر فوج حالات تو ٹھیک کرے سیاستدان تو ٹھیک نہیں کر سکے۔
اب تو لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ فوج بھی سیاستدانوں کے حق میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ جرنیل سیاست میں آتا ہے یا سیاستدانوں کا ساتھ دیتا ہے تو وہ خود بھی سیاستدان بن جاتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔
نیب کے خلاف وزیراعظم نے بیان دیا تو کیا ہوا۔ جرنیل نے بیان دیا تو کیا ہوا؟ نہ نیب نے کچھ کیا نہ نیب کا کچھ ہوا۔ سب کچھ ویسے ہی چل رہا ہے جیسے چل چلائو ہوتا ہے۔ کچھ دوست پاکستان کے لئے فکرمند تھے۔ یہ ملک اب کیسے چلے گا؟ ایک دوست خاموش بیٹھا تھا وہ بولا پاکستان ایسے ہی چلتا رہے گا جیسے چل رہا ہے؟ نیب احتساب کے لئے بنائی گئی تو نیب کا احتساب کون کرے گا۔ نیب اب پولیس سے بھی زیادہ ظالم ہے۔ یہ میں نے نہیں کہا ہمارے وزیراعظم نے کہا ہے۔ کرپشن زیادہ ہوئی تو ایک ادارہ بنایا گیا۔ انٹی کرپشن۔ وہ کچھ عرصے میں آنٹی کرپشن کے نام سے مشہور ہو گیا اور پھر ختم ہو گیا۔ اس کے بھتیجے سارے جوان ہوئے اور شادی شدہ ہو گئے اب وہ کئی بچوں کے باپ ہیں۔ بچے باپ پر گئے ہیں۔ یعنی کرپشن میں باپ سے دو قدم آگے؟
حکمران یہی بتا دیں کہ جو قرضہ امریکہ وغیرہ سے لیا گیا ہے وہ کہاں گیا ہے؟ جتنا قرض لیا گیا ہے اس کا ایک چوتھائی بھی مہارت اور دیانت سے ملک و قوم کے لئے خرچ کیا جاتا تو لوگ سیاستدانوں کی طرح خوشحال ہوتے۔
طلال چودھری نے بیان دینے سے پہلے پرویز رشید کا بیان پڑھ لیا ہوتا۔ طلال کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کا وزیر بننا اتنا ہی مشکل ہے جتنا عمران کا وزیراعظم بننا عمران تو شاید وزیراعظم بن جائے مگر طلال چودھری کے لئے اللہ تعالیٰ کو کبھی جلال بروزن طلال نہیں آئے گا۔ طلال چودھری نے کہا کہ آرمی چیف کا بیان حکومتی پالیسیوں کے تسلسل میں ہے۔ پرویز رشید کی بات سن کر حیرت ہوئی کہ کرپشن کے خاتمے کی آڑ میں کسی کو سیاست نہیں کرنے دیں گے۔ ان کا اشارہ واضح طور پر پاک فوج بلکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف ہے۔ پرویز رشید کا دھیان ابھی اس بات کی طرف نہیں گیا کہ جنرل راحیل بھی شریف ہیں نواز شریف کی طرح تو وہ جنرل راحیل شریف کے لئے پریس کانفرنس کرتے ہوئے احتیاط کرتے۔ پاکستان میں تمام وزرائے اطلاعات نے اتنی پریس کانفرنسیں نہیں کی ہوں گی جتنی اکیلے پرویز رشید نے کی ہیں مبارک ہو۔ ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ برائے نواز شریف میں پہلے نمبر پر آنا چاہئے۔
پرویز رشید کا مطلب ہے کہ صرف ہمیں کرپشن کے خاتمے کی آڑ میں بلکہ باڑ میں سیاست یعنی حکومت کرنے کا حق ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ آرمی چیف پر کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ وہ براہِ کرم پرویز رشید کو اور عابد شیر علی کو سمجھایا کریں بلکہ ان پر اعتراض کیا کریں۔
ہم جنرل راحیل شریف کے لئے دعا گو ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہماری تو بددعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں ورنہ جنرل راحیل شریف کچھ تو کرتے ورنہ نواز شریف ہی کو کچھ نہ کچھ کرنے کی عملی ہدایت کرتے۔