سولہویں صدی کے بعد جب مغربی اقوام نے مذہب کو سیاسی ادارے سے خارج کردیا توانہوں نے وطن کو اپنی قومیت یاقومی شناخت قراردیا۔ مسلمان حکمرانوں نے بھی مغرب کی پیروی کی انہوں نے مذہب کو ریاست سے بالکل خارج تو نہ کیا لیکن عملاً وطنی قومیت کو اپنی شناخت بنایا۔ اب وہ مسلمان کے بجائے مصری، عراقی، افغانی، شامی وغیرہ کہلانے لگے۔ یہی انکی قومیت بن گئی۔ اس طرح ملت اسلامیہ مختلف چھوٹی چھوٹی اقوام میں تقسیم ہوگئی۔ مسلمان ایک دوسرے کے حریف بن گئے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کیخلاف جنگیں کرنے لگے۔ مشرق وسطیٰ میں یہ عمل سیاسی زندگی کا ایک حصہ بن گیا۔
مسلمان ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں آباد تھے۔ یہ وقت ہندوستانی مسلمان کیلئے نہایت پریشان کن تھا کہ اب کیا کریں اور کدھر کوجائیں۔ ایک مولانا نے فتویٰ دیا کہ مسلمان ہندوستان سے اپنے آبائی اوطان کی طرف ہجرت کرجائیں۔ دوسرے مولانا نے فرمایا کہ وہ ہندوستانی قومیت اختیار کرلیں۔ یہ دونوں مشورے مسلمانوں کے وجود کیلئے نہایت خطرناک تھے۔
اس مرحلے پر علامہ اقبال نے قومیت اور اسکے خطرناک عواقب کو اپنی اکثر وبیشتر تحریروں میں بیان کیا۔ علامہ اقبال نے لکھا:’’اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن اسلام، اسلامیوں کا نسلی امتیازو ملکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا۔ اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں ایک انقلاب عظیم برپا کردیا۔ مندرجہ بالا عبارت علامہ اقبال کے اس خط کی ہے جو انہوں نے 8ستمبر1921ء کولکھا۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ انہوں نے 1906ء میں قومیت کے وطنی نظیریہ اور اسکے خطرناک نتائج کو اچھی طرح درک کرلیاتھا۔ علامہ کے مندرجہ ذیل خط کی عبارت سے جو انہوں نے اپنی وفات سے صرف دو ماہ پیشتر تحریر کیا، یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے زندگی اس مسئلے کی توضیح میں صرف کردی۔ 18فروری 1938ء کو ایک خط میں لکھا:
’’میں نے اپنی عمر کا نصف حصہ اسلامی قومیت اور ملت کے اسلامی نقطہ نظر کی تشریح و توضیح میں گزارا ہے، محض اس وجہ سے کہ مجھ کو ایشیا کیلئے اور خصوصاً اسلام کیلئے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایک خطرہ عظیم محسوس ہوتا تھا۔
مندرجہ بالا دونوں تحریروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی شعوری زندگی اس مسئلے کی توضیح میں صرف کردی۔ انکے تمام افکار میں مسئلہ قومیت سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہندی قومیت چھوڑکر اسلامی قومیت کا واضح نظریہ پیش کیا اور خطبہ الہ آباد میں فرمایا کہ اگر مسلمان اسلام سے وابستہ ہوجائیں گے تو بچ جائیں گے ورنہ کوئی چیز انہیں ہلاکت سے نہ بچا سکے گی۔
قومیت ایک ایسا نظریہ ہے جس کے مطابق بعض ہم وطن، ہم زبان، ہم نسل اور ہم رنگ لوگ اپنے مادی مفادات کیلئے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اپنا علیحدہ سیاسی، عسکری اور اجتماعی نظام بنالیتے ہیں۔
نبی کریمؐ کے اصحاب بعض مہاجر اور بعض انصار تھے۔ چونکہ ان میں ہمیشہ عدل و انصاف برقرار رکھا جاتا تھا اس لئے وہ سب کے سب شیرو شکر بن کررہے۔ ایک دوسرے پر جانیں قربان کرتے تھے۔ قومیت کامادی نظام عموماً خود خواہی ہوس اور بے انصافی سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی قومیت اور وطن صرف اسلام ہے۔ اسلام ہی انسانیت کادین اور آئین ہے۔
اقبال نے کہا: ’’ تاریخ ادیان اس بات کی شاید عادل ہے کہ قدیم زمانہ میں دین قومی تھا، جیسے مصریوں کا یونانیوں اور ہندیوںکا۔ بعد میں نسلی قرار پایا جسے یہودیوں کا، مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیویٹ ہے جس سے بدبخت یورپ میں یہ بحث پیدا ہوئی کہ دین چوں کہ پرائیویٹ عقاید کانام ہے اس واسطے انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن صرف سٹیٹ ہے ۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی، نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے اور اس کا مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالم بشری کو متحدہ ومنظم کرنا ہے۔ ایسا دستور العمل قوم اور نسل پر بنانہیں کیاجاسکتا نہ اس کو پرائیویٹ کہہ سکتے ہیں کہ کیاخوب کہا مولانا روم نے:
ہمدلی ازہمربانب بہتر است
اقبال کے نزدیک دنیا میں صرف دو ہی ملتیں ہیں ایک اسلام ہے۔ حضرت علامہ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: کیا خدا کی بارگاہ سے امت مسلمہ کانام رکھوانے کے بعد بھی یہ گنجائش باقی نہ تھی کہ آپ کی ہیئت اجتماعی کا کوئی حصہ عربی، ایرانی، افغانی، انگریزی، مصری یا ہندی قومیت میں جذب ہوسکتا ہے۔ امت مسلمہ کے مقابل میں تو صرف ایک ہی ملت ہے اور وہ ’’الکفر ملتہ واحدہ‘‘ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن صاف صاف اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ کوئی دستور العمل جو غیر اسلامی ہونا معقول ومردود ہے‘‘ (مقالات اقبال،274)
علامہ اقبال نے اس مسئلے کے بارے میں بہترین دلیل دیتے ہوئے فرمایا: ’’حضور رسالت مآبؐ کیلئے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابولہب یا ابو جہل یا فکار مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بت پرستی پرقائم رہو، ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے ہیں۔ مگر نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر جوہمارے اور تمہارے درمیان موجودہے، ایک وحدت عربیہ قائم کی جاسکتی ہے۔ اگر حضورؐ نعوذ باللہ یہ راہ اختیارکرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبی آخر الزمان کی راہ نہ ہوتی‘‘
اسلام میں قومیت کی اساس اگر نسل، زبان اوروطن قرار پاتی تو نبی کریمؐ اہل مکہ سے جو آپ کے ہم نسل، ہم زبان اور ہم وطن تھے، اختلاف نہ فرماتے۔
قومیت کا ملکی تصور جس پر زمانہ حال میں بہت کچھ حاشیے چڑھائے گئے ہیں اپنی آستین میں تباہی کے جراثیم کو خود پرورش کررہا ہے۔ اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے:
اپنی ملت پر قیام اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
علامہ اقبال کے نزدیک اسلام سے علیحدہ زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے اور اپنے معنوی اثرونفوذ سے معاشرے کو ایک مخصوص ہیئت عطا کرتا ہے۔ یہ دین اسلام مسلمان کی زندگی کے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، عسکری، قانونی اور انتظامی تمام شعبوں کی روح ورواں ہے۔ لہذا کوئی مسلمان اپنی زندگی اسلامی قوانین سے ہٹ کر بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان کوائف کے پیش نظر علامہ اقبال نے ہندوستان میں مسلمانوں کی مستقل زندگی کو اسلام کا مرہون منت قراردیا۔ اقبال کے نزدیک ہندوستان میں اسلام نے ایک عظیم قوت کے طور پر مسلمانوں کو زندگی کو ہر دور میں استحکام بخشا اور انکی قومی حیثیت یا ملی خودی کو قائم رکھا۔ انکے وجود کو ہندو قوم میں تحلیل یا جذب نہ ہونے دیا۔ اسلام نے اپنی اخلاقی روح کا یہاں بہترین مظاہرہ کیا۔