اقبال کے نزدیک اسلام ہی انسان کو اعلیٰ اخلاقی شعور دے سکتا ہے۔ اور منتشر افراد کو ایک نصب العین کی صورت عطا کرسکتا ہے۔ کیونکہ ملت نصب العین کی وحدت سے معرض وجود میں آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا:
’’اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے اور جن سے متفرق و منشتر افراد بتدریخ متحد ہوکر ایک متمیز اور معین قوم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہوجاتا ہے۔ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کار فرما ہے۔ ان کے نزدیک:’’دین اسلام نفس انسانی اور اس کے لئے اخلاقی حدود متعین کرتا ہے جس سے ایک ترقی یافتہ تہذیب اور فلاحی معاشرہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ دین اسلام نفس اسلامی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا، بلکہ ان کے عمل کے حدود متعین کرتا ہے۔ ان حدود کو متعین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الہی ہے۔‘‘
نبی کریمؐ کا خطبہ حجتہ الوداع حقوق انسانی کا پہلا جامع و کامل منشور ہے جس میں آپ نے نسلی اور طبی تعصبات کے خاتمہ کا اعلان فرمایا۔ بندہ آقا، عرب و عجم اور اسود احمر کے امتیازات کو کالعدم قرار دیا۔ فرمایا کہ سب آدم کی اولاد ہیں۔ تم میں اچھا وہ ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یاسیں، وہی طحہ
علامہ اقبال نے اپنے تمام کلام میںنبی کریمؐ کے ساتھ اپنی گہری عقیدت اور غیر معمولی محبت کا اظہار کرتے ہوئے حضورؐ کے اخلاقی محاسن کو بیان کیا ہے۔ تاکہ مسلمان حضورؐ کے اخلاق کو اپنائیں اور اہل عالم کے لئے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں۔ اقبال اپنی پہلی فارسی مثنوی اسرار خودی کے آغاز میں لکھتے ہیں۔
’’نبی کریم ﷺ کی محبت سے دل قوت حاصل کرتا ہے۔ آپ معمولی چٹائی پر سوتے تھے لیکن آپ نے اپنی امت کو تخت کسریٰ پر بٹھایا۔ آپ نے استحصالی قوتوں کی نسلوں ختم کیا اور دنیا کو ایک نیا زندگی بخش آئین عطا فرمایا۔ آپ نے دین کی حکمت سے امت پر دنیا کے دروازے کھول دیئے۔ مادرگیتی نے آج تک آپ جیسا کوئی کو پیدا نہ کیا۔ آپ نے امیر و فقیر کو یکساں حیثیت عطا فرمائی اور اپنے غلام کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ آزادی کا درس انسان کو آپ نے دیا اور آپ ہی سرداروں جابروں اور کاہنوں سے انسان کو آزاد کیا۔
علامہ اقبال تاریخ عالم کے وہ غیر معمولی مفکر ہیں جن کے نظریہ تمدن کی اساس پر ایک عظیم الشان مملکت معرض وجود میں آئی۔ ان کا نظریہ تمدن مکمل طور پر اسلام تھا۔ جس کا مرکزی نقطہ عقیدہ توحید ہے۔ تو حید کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا واحد خالق اور مالک ہے۔ وہی قادر مطلق ہے۔ وہی عبادت اور اطاعت کے لائق ہے۔ حکومت صرف اسی کی ہے۔ کوئی دوسرا اس کی حکومت میں شریک نہیں بقول اقبال:
سروری زیبا اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتان آزادی
اسلام رنگ ، نسل اور علاقائی تعصبات کی مکمل نفی کرتا ہے۔ اس کے نزدیک عرب و عجم، اسود احمر، بندہ آقا سب برابر ہیں۔ ان اعلیٰ انسانی اصولوں کی بنا پر اقبال اسلام کے مقابلے میں کسی ضابطہ حیات کو مطلق کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا:’’میرے نزدیک فاشزم، کمیونزم یا زمانہ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدے کی رو سے صرف اسلام ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کیلئے ہر نقطہ نگاہ سے موجب نجات ہو سکتی ہے۔
’’اسلام ھئیت اجتماعیہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ھئیت اجتماعۃ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کاراضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں،بلکہ اس امر کا اعلان کرتا ہے ہر دستور العمل جو غیر اسلامی ہو وہ نا معقول اور مردود ہے‘‘
باطل دوئی پسندہے حق لا شریک ہے
شرکتِ میانہ و باطل نہ کر قبول
حضرت علامہ کو اسلامی حقایق کے بارے میں ایک غیر معمولی بصیرت حاصل تھی۔اس بصیرت کی بنا پر وہ اسلام کو ایک حیات بخش عنصر قراد دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’دین اسلام غیر محسوس اور غیر مرئی حیاتیانی ،نفسیاتی سرگرمی ہے ،جس میں یہ صلاحیت و دیعت کی گئی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے افکار و اعمال کو بغیر کسی کوشش کے متاثر کرتا ہے ۔مزید اپنی ایمانی قوت کی بنا پر کہتے ہیں:’’دنیا میں کار فرما قوتیں اکثر اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں ۔لیکن ’’لیظھرہ علی الدین کلہ‘‘کے دعویٰ پر میرا ایمان ہے کہ انجام کار اسلام کی قوتیں کامیاب اور فائز ہوں گی‘‘
اقبال کے سامنے برصغیر کے مسلمانوں کے جا ن و مال اور دین و ثقافت کے تحفظ کا اہم مسئلہ تھا۔ ان کی دور اندیش نگاہوں نے عصری حادثات کی روشنی میں درک کر لیا تھا کہ برصغیر سے انگریز کے چلے جانے کے بعد ہندو اکثریت مسلمان اقلیت کو اپنے اندر جذب کر کے ختم کر دے گی ۔حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہا:’’آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے ،ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈا اور بھیل اقوام کی طرح ہو جائے اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک میں فنا ہو جائے ۔اگر ان مقاصد کی تکمیل کیلئے مجھے تمام کام چھوڑنے پڑے تو ان شاء اللہ چھوڑ دوگا اور اپنی زندگی کے باقی ایام اس مقصد جلیل کیلئے وقف کر دوں گا ۔
ہم لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐکے سامنے جواب دہ ہوںگے ۔حضرت علامہ کے تصور کے مطابق پاکستان ایک آزاد اسلامی ریاست کی صورت میں ظہور پذیر ہوا ۔مؤ سس پاکستان حضرت قائداعظم نے علاقہ اقبال کی سیاسی بصیرت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا :اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاست دان بھی تھے ۔انہوں نے آپ کے سامنے ایک واضح راستہ رکھ دیا جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا۔مرحوم دور حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا ۔مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کاشیدائی نہیں دیکھا‘‘