سرینگر(کے پی آئی+اے این این)مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے کالج میں گھس کر طلبا و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف احتجاج جاری، تمام کالج بند رہے جبکہ ہائر سکینڈری سکولوں میں طلبا نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیاجبکہ سرینگر، صفا پورہ،نادی ہل،اجس بانڈی پورہ، کنگن، پلہالن، دلنہ،سوپور،قلم آ باد اور سوگام کپواڑہ میں طلبا نے جلوس نکالے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ٹیئر گیس داغے اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔ بھارتی مظالم کے خلاف علمائے کرام بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔قائدین سیدعلی گیلانی‘ میر واعظ عمر فاروق اور ؒیاسین ملک نے کشمیری طلباءپر تشدد اور تعلیمی اداروں پر دھاوا بولنے کو ریاستی دہشت گردی کی بدترین شکل قرار دیتے ہوئے عوام سے نمازجمعہ کے بعد طلباءکے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ایک گھنٹے کا پرامن علامتی احتجاج اور ہڑتال کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا ضمنی الیکشن ڈرامے کے موقع پر کشمیری عوام کی طرف سے جو دوٹوک فیصلہ سامنے آگیا ہے اس نے سرینگر سے دہلی تک حکمرانوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے اور وہ مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں۔ کانگریس نے سابق وزیر اعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سربراہی میں جموں کشمیر میں9 رکنی پالیسی ساز گروپ تشکیل دیا ہے جس کا مقصد تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کے علاوہ قیام امن کیلئے سازگار ماحول تیار کرنا ہوگا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ پالیسی ساز گروپ کانگریس سربراہ سونیا گاندھی نے ازخود تشکیل دیا ہے جبکہ اس پالیسی ساز گروپ کے سپرد کشمیر میں تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ جموں کشمیر میں موجودہ غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کیا جاسکے۔سوپور کے 80 سالہ بزرگ جماعت اسلامی لیڈرشیخ محمد یوسف کو ایک بار پھر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کپواڑہ جیل سے بارہمولہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔لشکر طیبہ نے کہا ان کا کوئی افغان ونگ نہیں ہے اورنہ ہی کوئی اے یا بی گروپ ہے۔ پی ڈی پی رہنما اور کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کے بھائی تصدق حسین مفتی نے کہا ہے کہ وادی کشمیر میں ان کی جماعت کو مکمل تباہ کرنے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لئے منصوبہ بند ڈھنگ سے کوشش کی جا رہی ہے۔کشمیری نوجوانوں میں پائے جانے والے غم و غصہ کوٹھنڈا کرنے کے لئے جامع قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے ۔ بھارتی اخبار کے ساتھ بات چیت کے دوران تصدق مفتی نے کہا کہ اس سارے تنازعہ میں صرف ایک فریق ایسا ہے جس کی بات نہیں سنی جا رہی ہے اور وہ ہیں عوام۔ پورا نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور دہلی میں جموں کشمیر سرکار کی قدر و قیمت شاید بہت ہی کم ہے۔