لاہور‘چارسدہ (نوائے وقت رپورٹ‘صباح نیوز) چیف جسٹس ثاقب نثار نے لاہور ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہتا ہوں اپنے کردار اور قول سے اس بار کیلئے جو کر سکوں وہ کروں، یہ حقیقت ہے کہ عمارت اور یہ بار میرے لئے اجنبی نہیں ہے، بار اور بنچ نے ایک ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ بار اور بنچ اکٹھے پیدا ہوئے تھے جڑواں بھائی ہیں، بار اور بنچ کے رشتے کو ہمیں اور گہرا کرنا ہے، ہمیں کسی یکجہتی اور کسی کی سپورٹ کی ضرورت نہیں، بار اور بنچ کی یکجہتی بہت ضروری ہے، کوشش ہے کہ بار کے وقار اور عزت کے لئے کچھ کر سکوں، بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق میرے فیصلے موجود ہیں، ہم آزاد کام کر رہے ہیں اور کریں گے، ہم آزاد ہیں اسی سے ہمارا وقار ہے، بار ہمیشہ اپنے ججز کی محافظ رہی، ایک جج کی پہچان اس کے فیصلے سے ہوتی ہے۔ جہاں تک بنیادی حقوق کے تحفظ کا تعلق ہے تو یہ میری ڈیوٹی ہے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے میں نے ہمیشہ زور دیا ہے، بلاوجہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، آزاد ہیں غیرمتعصب ہیں، عدلیہ کو سیاسی بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بلاوجہ لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایکشن لینا پڑتا ہے، حکومت انسانی حقوق کی فراہمی پر توجہ دے تو عدالت پر بوجھ کم ہو گا، آج کل سپریم کورٹ کے ساتھ یکجہتی کا رجحان اور بہت رومانس دکھایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ کو کسی کی سپورٹ کی ضرورت نہیں، عدلیہ آزاد اور خودمختار ادارہ ہے، سپریم کورٹ جیسے ادارے پر تنقید کا کوئی سوچے بھی نہیں، کچھ لوگوں نے ججز کی تصویر کے ساتھ اشتہار لگائے جس کی اجازت نہیں عدلیہ کو آزاد طریقے سے کام کرنے دیں۔ یہ ہمارا فرض ہے سپریم کورٹ آزاد ہے لہٰذا کسی کو ادارے پر تنقید کی اجازت نہیں دوں گا۔ آزاد عدلیہ ہماری طاقت اور خوبصورتی ہے۔ دریں اثناء چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے وقت آگیا ہے کہ اب ہماری عدلیہ کو ڈیلیور (کارکردگی) کرنا پڑے گا اور اگر عدلیہ ڈیلیور نہیں کرے گی تو ہم شاید جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ کر پائیں، ہم نے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا، سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کو جلد انصاف نہیں ملتا، وہ کیوں نہیں ملتا، اکیلا اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پا رہا، کتنی دہائیوں کے باوجود ان کو انصاف نہیں ملا، انصاف کا تاخیر سے ملنا انصاف کی موت ہے، یہ نظام کا قصور ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے، ہمیں اپنے بچوں اور قوم کے لئے قربانی دینا پڑے گی، دیانت داری، بہترین صلاحیت اور ایمانداری کےساتھ رات دن محنت کریں، مجھے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے تعاون فراہم کریں۔ چارسدہ میں جوڈیشل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے عمارت سے نہیں بنتے، یہ شخصیات سے بنتے ہیں۔ دنیا میں قومیں علم، لیڈرشپ، عدالتی نظام اور انسٹی ٹیوشنز سے ترقی کرتی ہیں، جو قومیں ایڈہاک ازم پر چلتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔ چیف جسٹس نے کہا ادارے ترقی کی ایک مثال ہوتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہماری عدلیہ کو ڈیلیور کرنا پڑے گا۔ اگر عدلیہ ڈیلیور نہیں کرے گی تو ہم شاید جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ کرپائیں۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا ہمارے قانون بہت پرانے ہیں، ان قوانین کو اپ ڈیٹ کرنا مقننہ کاکام ہے۔ ہم نے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا۔ سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کو جلد انصاف نہیں ملتا، وہ کیوں نہیں ملتا، اکیلا اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پا رہا۔ ان کا کہنا تھاکہ آج بھی کئی ایسے مقدمات کو سپریم کورٹ میں دیکھ رہا ہوں جو 1985 میں دائر ہوئے، اب ان لوگوں کو کیا جواب دوں۔ کتنی دہائیوں کے باوجود ان کو انصاف نہیں ملا۔ انصاف کا تاخیر سے ملنا انصاف کی موت ہے، یہ نظام کا قصور ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا مجھے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے تعاون فراہم کریں۔ جو سوموٹو ایکشن لئے وہ بنیادی حقوق سے منسلک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بغیر دنیا میں کوئی قوم اور ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں آپ سے تعاون اور اس نظام کو درست کرنے میں مشاورت چاہتا ہوں۔ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر وقت حاضر ہوں۔ سپریم کورٹ کے بنچز میں قانون کی تبدیلی کرکے بینچ نہیں بٹھا سکتا۔ انسانی حقوق کے معاملے میں کہیں بیٹھ کر کوئی بھی فیصلہ کرسکتا ہوں۔
چیف جسٹس