علامہ اقبالؒ برِ صغیر کے عظیم ترین اور عصری احساس والے مفکر اور مبلغ ہیں جن کی نظر میں مسلمانوں کے تابناک ماضی، حال اور مستقبل پر یکساں تھیں اور انہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ دنیاوی مادی ترقیوں کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی ذات، صلاحیت، صفات اور رازِ حیات سے بھی بخوبی آشنا رہے۔ اگر مسلمان خود کو پہچان لے، توانا خود داری اور غیرت و حمیت کی کامل حفاظت کرے، شریعتِ محمدی کی پیروی کرے، احکام خداوندی کی تابعداری کے ساتھ سوزِ یقیں اور حرارتِ ایمانی کو فروغ دے تو نہ صرف انسانی معاشرے کو ہر قسم کی لعنتوں اور برائیوں سے پاک کر سکتا ہے بلکہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو نیکی، سچائی، خدا ترسی اور اخلاقِ عالیہ کی لازوال روشنی دے سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے نظریہ فوق البشر میں خودی اور فلسفہ کے سر بستہ رازوں کو واشگاف کرتے ہوئے ان کی تشریح کی ہے۔ انسان خودی کے بغیر ایسا ہے جیسے بے روح بدن، خودی انسان کی حیائ، اناء اور آب ہے جو اتر جائے یا ختم ہو جائے تو اس میں کچھ نہیں رہتا۔ خودی کے ذریعے انسان نہ صرف اپنی ذات و صفات کو پہچانتا ہے بلکہ معبودِ حقیقی کو بھی پہچان کر اس کے قرب اور رضا کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ بد دیانتی، خود غرضی، بد عنوانی اور نفس پرستی کو ترک کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی خد مت، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اتباع سنتِ رسول اللہ کو ترجیح دیتا ہے۔ اقبالؒ کے بموجب ہر انسان میں عظمت و بزرگی کے پیدائشی جوہر موجود ہوتے ہیں جنہیں پہچان کر وہ انہیں فروغ دیتا ہے جو لاعلم رہتا ہے وہ تہی دست اور تہی دامن رہتا ہے۔ جو لوگ اپنے اس وصف کو پہچان لیتے ہیں وہ بے مثال منارۂ نور بن جاتے ہیں اور خدمت، انسانیت اور بہبودِ انسانیت کے فرائض انجام دیتے ہوئے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں۔ اقبالؒ کے قریب خود شناسی اور فروغِ خودی کے لئے ضروری نہیں کہ انسان مسلمان ہی ہو کیونکہ یہ عمل اہلِ یورپ میں بھی موجود ہے اور وہاں بھی عظیم انسان پیدا ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے تعلیماتِ اسلامی سے استفادہ کیا اور روحِ ایمانی کو سمجھا تھا۔ گویا یہ ثابت ہوا کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو بنی نوع انسان کو ایک مکمل ضابطۂ حیات عطا کرتا ہے۔ اقبالؒ یورپ کی ایسی شخصیات کو سپر مین قرار دیتے ہیں جو کہ اقبالؒ ہی کے مردِ مومن کا دوسرا عکس ہے۔ اقبالؒ کا مردِ مومن پیکرِ صبر و رضا ہے، حلیم الطبع اور منکسر المزاج ہے لیکن جب اس کی مسکراتی انسانیت اور شگفتہ تہذیب کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھتا ہے تو پھر یہی حلیم الطبع انسان شعلۂ جوالہ بن جاتا ہے۔ اقبال کا نظریہ فوق البشر دراصل انسان کی خودی کے فروغ کی بات ہے جو قربِ الہٰی بخشتی اور کائنات کے راز منکشف کراتے ہوئے انسان کو بلند و ارفع درجات عطا کرتی ہے یوں انسان اشرف المخلوق کا حقیقی نمائندہ بن جاتا ہے، اقبالؒ کے مردِ مومن اور شاہین میں یہی صفات ہیں۔ سوز و جذبہ ایمانی کے حصول سے مومن ایک بلند مقام اور درجے پر پہنچ جاتا ہے اور اس پر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ قدرت کی تفسیر بن جاتا ہے۔ مردِ مومن صرف اللہ کا نمائندہ ہی نہیں ہوتا بلکہ نیکی اور بہبود و سلامتی کا پیامبر ہوتا ہے یعنی مردِ مومن ہی انسانیت کیلئے نمونہ و مثال ہوتا ہے کیونکہ اس کا ہر فعل احیائے الہٰی کے عین مطابق ہوتا ہے۔ علامہؒ کے قول کیمطابق اسلام نے ایک تمدنی تحریک ہونے کی حیثیت سے تصورِ کائنات کے تمام قدیم نظریے پسِ پشت ڈال دیے اور ایک عملی نظام پیش کیا۔ اسلام اللہ اور صرف اللہ کی ذاتِ واحد کے سامنے سر جھکانے کی تعلیم دیتا ہے۔ چونکہ اللہ ہی تمام تر انسانی زندگی کی روحانی بنیادوں کا مقصودِ مطلق ہے اس لیے انسان کا اسکے سامنے جھکنا دوسرے لفظوں میں اپنے نفسِ کامل کے سامنے جھکنا ہے۔ اقبالؒ مرحوم فرماتے ہیں : اسلام کے نظریہ حیات کے مطابق تمام تر روحانی زندگی کا مقصودِ مطلق ایک ایسی ابدیت ہے جسکی نمود تنوع اور ثبات دونوں حالتوں میں یکساں ہوتی ہے۔ حقیقت مطلق کے اس تصور پر استوار کی ہوئی سماج اپنے نظامِ زندگی میں تنوع اور ثبات کی تمام جزئیات سے ہم آہنگ ہونی چاہئے۔علامہ اقبال کے کلام کی گہرائی اور گیرائی، ہمہ گیری، غیر خیالی، شش جہتی اور جامعیت کا کون ہے جو معترف نہیں، افکار کے تنوع اور تصورات کی ثروت میں شائد ہی کوئی شاعر اقبال کے منصب، مقام اور مرتبے تک پہنچ سکے۔ قدیم و جدید فلسفے اور استدلال ، مختلف تہذیبوں کے نظامِ حیات، تمدنی قواعد و ضوابط، انفرادی اور اجتماعی سلوک کے طور طریق، اخلاقی اصول و سیاسی رجحانات کے اظہار، زبان و مذاہب کے مسائل، اسلامی و غیر اسلامی تصوف کے جائزے وغیرہ جیسے جامع موضوعات اور خیالات کو اقبال نے شعری پیکر عطا کیا اور ان میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ان کی ادراک و فہم کو اگر بروئے کار لایا جائے تو یہی ہر مردِ مومن کے لئے مشعلِ راہ اور وسیلہ نجات ثابت ہو سکتی ہے لیکن حیف کہ عصرِ جدید کے افراد ان کے نتیجہ فکر کو محض شاعری تصور کرتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر انکے کلام کو قرآن و احادیث اور اسلامی تواریخ کی روشنی میں سمجھنے کی زحمت گوارا کریں تو انہیں ان کے کلام کی افادیت محسوس ہو جائیگی۔ وہ تعصب اور دنیاوی تہذیب کا اثر قبول نہیں کرتے تھے کیونکہ انکے قلوب پر صرف خدا اور آخرت کی پرستش کا خوف غالب رہا کرتا تھا۔اسلام کے نظریۂ حیات کے مطابق تمام تر روحانی زندگی کا مقصود مطلق ایک ایسی ہدایت ہے جس کی نمود، تنوع اور ثبات کی تمام جزئیات سے ہم آہنگ ہونی چاہئے۔ علامہؒ مرحوم اس بات پر زور دیتے ہیں اگر کوئی طاقت زوال کی طاقتوں کیخلاف مضبوطی سے کھڑی ہو سکتی ہے تو وہ قوم کے افراد کی انفرادی زندگی کا استحکام ہے۔ فقط ایسے محکم افراد ہی حیاتِ انسانی کی گہرائیوں کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔ نئے معیار مقرر کر کے زندگی کی قدروں کو ترتیب دے سکتے ہیں۔ ان تجربات کو مدِ نظر رکھ کر ہم یقیناً ان مسائل کا حل دریافت کر سکتے ہیں جو عہدِ حاضر نے ہمارے سامنے پیش کر دئے ہیں۔