انسان عمر بھر بہتر مستقبل کے لیے تگ و دو کرتا رہتا ہے لیکن عمومی طور پر بعض مسائل حل ہو جاتے ہیں اور کئی ایک بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ حالات و واقعات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ غریب ، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے اور صورتحال یہ بن جاتی ہے کہ ؎
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
موجودہ دورمیں مسلم تشخص بحران کا شکار ہے۔ انفرادی اور اجتماعی خودی لاغر اور کمزور ہو گئی ہے۔ معاشرتی، معاشی اور دیگر کئی ایک پہلوئوں سے معاشرہ اخلاق باختہ ہو چکا ہے۔ ہر مسئلہ کاحل ہڑتال اور آہ و بکا میں تلاش کیا جاتا ہے۔ روایتی فکری گھٹن نے انسان سے آزادیٔ ارادہ چھین لیا ہے؎
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
ضرورت اس امر کی ہے کہ عصرِ حاضر کے مسائل کا حل فکر اقبال میں تلاش کیا جائے۔ علامہ اقبال نے مشرق و مغرب کے افکار کو کھنگالا لیکن اسلامی تعلیمات کی روح کو ہرحال میں مدِنظر رکھا۔ اقبال کا نظریۂ اخلاق بھی انہی بنیادوں پر قائم ہے۔ انسان کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھنے کے لیے اسلام نے جو طریقے بیان کئے ہیں علامہ اقبال نے ان کی معنویت سے آشنائی حاصل کرنے کی لگاتار کوشش کی ہے اور عہدِ حاضر کی متقضیات کی روشنی میں ان کو توضیح و تصریح کی ضرورت پر اصرار کیا ہے۔ مثلاً عبدیت کے مفہوم کو نئی وسعتوں سے ہمکنار کرتے ہوئے اس نکتے پر زور دیا کہ انسان کو اللہ کا بندہ ہوتے ہوئے اللہ کا شریک کار (Co-WORKER) بننے کی سعی کرنی چاہئے۔ اس سے انسان کا مرتبہ بلند ہو گا اور ہر فرد کی حیثیت ایک جیسی ہو جائے گی۔ کسی کو کسی پر بحیثیت انسان برتری حاصل نہیں ہو گی۔ جمہوریت کی اصل اساس واضح کرنے کی جانب یہ ایک اہم پیش رفت ہو گی۔ ہر کسی کی رائے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ اگر اختلاف بھی ہو تو دلیل و استدلال کی مدد سے دوسروں کو ہم نوا بنایا جا سکتا ہے۔ کسی کی رائے کو طاقت سے دبایا نہیں جا سکتا۔ مساواتِ انسانی کا یہ تصور عہدِ قدیم میں نمایاں نہیں تھا کیونکہ غلامی اور جبریت کی روش عام تھی۔ دینِ اسلام نے حکمت و دانائی سے غلامی کی زنجیروں کوتوڑا اور انسانی وقار، قدرو منزلت کو بتدریج ابھارا۔ یوں جمہوری نظریات کے ارتقا کی داغ بیل ڈالی۔ علامہ اقبال اجتہاد پر زور دیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اسلامی تعلیمات کے کئی ایک پہلو ابھی تک اپنی پوری توانائی سے نمایاں ہوئے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ مزید غور و فکر کی مدد سے ان پنہاں حکمتوں کوواضح تر کیاجائے اور یوں فلاحی انسانی معاشرے کے قیام کی راہیں روشن کی جائیں۔ اس سلسلہ میں اسلام کی اخلاقی تعلیمات انقلاب آفریں ثابت ہو سکتی ہیں۔ تصورِ خدا کو عملاً نافذ کرنے سے ان تمام مسائل و مشکلات سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے جس میں عہدِ حاضر کا انسان اپنے آپ کو جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔
؎دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالۂ و گل سے کلام پیدا کر
علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ انسانی خودی خدا کے قریب ہونے کے باوجود اپنا علیحدہ تشخص قائم رکھتی ہے۔ ایک محدود خودی لامحدود خودی سے رابطہ کرتی ہے۔ اطاعت ضبطِ نفس اورنیابتِ الٰہی فکرِ اقبال میں تربیت خودی کے ایسے مراحل ہیں جن سے گزر کر انسانی خودی مضبوط سے مضبوط تر ہو کر پوری طرح مستحکم ہو جاتی ہے۔ مستحکم خودی اتنی طاقتور بن جاتی ہے کہ کوئی طاقت بھی اسے کمزور نہیں کر سکتی۔ استحکام خودی اور اثباتِ خودی کی طرف گامزن ہو کر انسان خدا کا بندہ بھی رہتاہے اور شریک کارکن بھی بن جاتا ہے۔ کائنات کو سنوارنے میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ ایسا کر کے گویا وہ خدا کے احکامات کی ہی پیروی کرتا ہے۔ خدا سے التجا کرتا ہے۔ گڑگڑا کر دعا بھی مانگتا ہے اور اس سے گِلا شکوہ کرنے کے لیے ہم کلام بھی ہوتا ہے۔ وہ رفتہ رفتہ حواس کی دنیا سے نکل کر وجدان اور پھر عشق کی بلندیوں میں پرواز کرنے لگتا ہے جہاں وہ ایسی کیمیا گری کرتا ہے کہ عرشِ اعظم سے نسخہ لے کر ایسا مرکب تیار کرتا ہے جو محبت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سکون کو حرکت میں اور سکوت کورونق و ہماہمی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ تارے سے چمک، چاند سے داغ جگر، بجلی سے تڑپ تصور حور سے پاکیزگی ، نفس ہائے مسیح ابنِ مریم سے حرارت اللہ سے شانِ بے نیازی اور فرشتوں سے عاجزی لے کرجو نسخۂ وفا تیار ہوتا ہے وہ خدا اور خدا کے بندوں سے محبت کا باعث بنتا ہے۔ یہ علامہ اقبال کے فن کا کمال ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کی تربیت کے کیا کیا انداز اختیار کرتے ہیں کہ ممولے کو شہباز سے لڑا دیتے ہیں …؎
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر
علامہ اقبال نے معاشرتی زندگی میں توازن پیدا کرنے کے لیے معیاری علوم کی اہمیت اور معاشرتی علوم کا احترام مدِنظر رکھتے ہوئے انسان کو احساسِ خود سے اس قابل بنایا کہ وہ اخلاق کو قانون کی حیثیت دینے لگا۔ پھر خودشناسی سے خدا شناسی کا سفر بڑے سلیقے سے طے کرنے کے گُر سکھائے۔ آزادی اور آزادیٔ ارادہ کی تفہیم یوں کرائی کہ آزادیٔ ارادہ سے اخلاقی حکم ممکن ہو سکے۔ (جاری)