علامہ اقبال اوراحترام انسان

اقبال کے نزدیک انسان کائنات کی تخلیق کا عالمی ترین مظہر ہے۔ اس کی تخلیق احسن تقویم پر ہوئی وہ بظاہر ذرہ سا ہے لیکن سورج کی توانائیوں پر قابو حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ایک قطرہ ہے جو اناالبحر کا نعرہ لگاتا اور انا الحق بھی کہتا ہے اس کے فکر و عمل کی وسعتوںکا کوئی حساب نہیں اس کے ہنگامہ ہائے نوبہ نو کی کوئی انتہا نہیں۔ اقبال انسانی تہذیب کی روح و رواں اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ انسان کا احترام کیاجائے۔ انہوں نے کہا:
برتر ازگردوں مقام آدم است
اصل تہذیب احترام آدم است
انہوں نے کہا: میں انسان کے شانداراور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ عقیدہ میرے خیالات و افکار میں آپ کو عموماً جاری و ساری نظر آئے گا۔ اس حوالے سے اقبال لکھتے ہیں۔ ’’قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر گوناں گوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اسکے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔ قرآنی تعلیمات کا یہی وہ بنیادی پہلو ہے کہ جس کے پیش نظر گوئٹے نے بہ اعتبار ایک تعلیمی قوت اسلام پرمن حیث الکل تبصرہ کرتے ہوئے ایکرمن سے کہا تھا کہ تم نے دیکھا اس تعلیم میں کوئی خامی نہیں۔ ہمارا کوئی نظام اور ہمیں پر کیا موقوف ہے کوئی انسان بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اقبال کے نزدیک جو انسان کا احترام نہیں کرتا وہ انسان دوست نہیں ہے وہ خدا دوستی اور خدا پرستی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ مخلوق سے محبت ہی خالق سے محبت ہے۔
اقبال جہاں انسان دوست قوتوں کا احترام کرتے ہیں وہاں انسان دشمن قوتوں کے رویوں کو بھی بے نقاب کرتے ہیںتاکہ آج پردہ تہذیب میں جو غارت گری اور آدم کشی کا عمل جاری ہے اسے روکا جا سکے۔ جس طرح مولانا رومی کے دور میں تاتاریوں نے انسان اور انسانیت کا نام ونشاں مٹایا تھا اسی طرح اقبال کے دور میں مغربی استعمار نے قبائل انسانی کو چاک کیا اور کر رہے ہیں بلکہ اب پہلے سے بھی بڑھ کرکر رہے ہیں۔ یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس کے سبب اقبال مغربی تہذیب کے تباہ کن رویوں کے خلاف ہو گئے ہیں۔ ان کے کلام کا ایک عظیم حصہ لا دین سیاست کی نفی اور بے رحم اور خود غرض ملوکیت کیخلاف بغاوت ہے۔ ان کی کتاب ’’پیام مشرق‘‘ کا سر آغاز ’’وللہ المشرق و المغرب‘‘ ہے تاکہ مشرق و مغرب کے فاصلے اوراختلافات دورکئے جائیں اور تمام انسان بحیثیت انسان ایک دوسرے کا احترام کریں۔ علامہ کی ایک دوسری کتاب ’’ضرب کلیم‘‘ کا ذیلی عنوان ہے۔ ’’اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف ۔‘‘ اقبال نے مغرب کے استعماری عزائم اور اس کی لادین سیاست کے مقاصد جس طرح ستر اسی سال پیشتر اس کتاب میں بیان کئے تھے وہ آج بھی اسی طرح واضح ہیں۔
علامہ اقبال کے نزدیک اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے مذہب و حکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ اسی طرح ان کی تہذیب اخلاق سے محروم ہو گئی اور اس کا رخ دہریانہ مادیت کی طرف پھر گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز تشکیل پائی تو اقبال نے کہا اسلام نے جمعیت اقوام سے بڑھ کر جمعیت آدم کا پیغام دیا ہے۔
لیگ آف نیشنز طاقتور اقوام نے کمزور اقوام کو اپنے تصرف میں لانے کا ایک ادارہ بنا لیا ہے۔ چنانچہ اقبال نے اسے کفن چوروں کی انجمن قرار دیتے ہوئے کہا:
من ازیں بیش ندانم کہ کفن وزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
علامہ اقبال کا تمام کلام انسان کے احترام اور اس کی حفظ و بقاء اور ترقی و ارتقاء کی تعلیمات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے پروفیسر نکلسن کے نام اپنے خط میں لکھا: میری قوت طلب و جستجو تو صرف اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشرتی نظام تلاش کیا جائے اور عقلاً یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات‘ رتبہ و درجہ رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے۔ یورپ اس گنج گراں مایہ سے محروم ہے اور یہ متاع اسے ہمارے ہی فیض سے حاصل ہو سکتی ہے۔
تاریخ میں تمام جنگوں کی بنیاد علاقائی‘ لسانی اور نسلی اختلافات ہیں۔ اسلام دنیا کا واحد نظام حیات ہے جس نے ان فساد انگیز اور تباہ کن اختلافات کو ختم کرنے اور انسانی برادری کو انسانیت کے نام پر متحد کرنے کی کوشش کی۔ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: تم میں کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں‘ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔
اسلام امن سلامتی کا مذہب ہے۔اس کی تعلیمات کا خلاصہ محبت و مساوات کی بنیاد پر ایک آفاقی معاشرے کی تشکیل ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کا یکساں احترام کیا جائے۔ اسلام ناگزیر طورپر عالم انسانی کیلئے امن کا مذہب ہے۔انسانیت کا مذہب کیونکہ اسلام اتحاد انسانی کا عظیم داعی ہے۔ ’’اسلام نے بنی نوع انسان کے اتحاد کے ضمن میں جو پہلا قدم اٹھایا وہ ایک ہی نوع کے اخلاقی ضابطے رکھنے والوں کو اتحاد کی دعوت دینا ہے۔ قرآن کریم نے اعلان کیا کہ : اے اہل کتاب آئو‘ ہم اللہ تعالیٰ کی توحید پر متحد ہو جائیں جو ہم سب کے درمیان مشترک ہے۔‘‘
گزشتہ دو صدیوں سے مادی اقدار خصوصیت کیساتھ فروغ پذیر ہوئی ہیں۔ علوم و فنون کی ترقی سے حیرت انگیز انکشافات معرض ظہور میں آئے ہیں۔ یہ عمل مغربی اقوام نے انجام دیا جس سے وہ بہت طاقتور بن گئیں۔ اس سے ان میں اپنی بالادستی اور برتری کا شدید احساس پیدا ہوا۔ انہوں نے جدید آلات کی مددسے مشرقی اقوام پر سیاسی‘ اقتصادی اور ثقافتی غلبہ پا لیا۔ مذہب اور اس کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو مشکوک اور مبہم قرار دیا۔ اس طرح مشرق اور مغرب میں فاصلے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ مشرق اورخصوصاً اسلامی مشرق مغربی اقوام کی چراگاہ بن گیا۔ اقبال نے کہا …؎
زیر گردوں آدم آدم را خورد
ملتے بر ملتے دیگر چرد
علامہ اقبال نے فرمایا: اسلامی ریاست کا انحصار ایک اخلاقی نصب العین پر ہے۔ پس اسلام ایک قدم ہے نوع انسانی کے اتحاد کی طرف یہ ایک سوشل نظام ہے۔ جو حریت اور مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ اس وقت احترام انسانی کے لئے اسلام سب سے بڑی نعمت ہے۔ مغرب میںگوئٹے نے نیشنلزم کے خطرناک نتائج کے سخت تردید کی۔ اس کا دیوان شرقی وغربی وحدت انسانی کا بہترین آئینہ دار ہے۔ اس نے کہاکہ میری خواہش یہ ہے کہ مشرق کو مغرب اور ایرانی کو جرمن کے نزدیک کر دوں‘ مغربی ادیبوں سے کہا کہ دروازہ ادب کو اور کھول دو تاکہ ہماری مجلس میں سعدی اور حافظ بھی بیٹھ سکیں۔ اس نے اسلامی اقدار کو غیر معمولی انداز میں خراج تحسین پیش کیا اور اپنی نظم (جوئے آب) میں دین اسلام کو انسان کے لئے ہر دور میں بہترین ضابطہ حیات قرار دیا۔
علامہ اقبال نے کہا : ’’نیشنلزم کا جو تجربہ یورپ میں ہوا اس کا نتیجہ بے دینی اور لامذہبی کے سواکچھ نہیں نکلا… رسول عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ حکم موجود ہے جسمیں فرمایا گیا تھا کہ آج میں نسل‘ ذات پات اور برادری کے تمام امتیازات کو پائوں کے نیچے کچلتا ہوں۔ تم سب مسلمان ہو اور یہی تمہارا صحیح نام ہے۔‘‘ عالم انسانی کے لئے یہی راہ فلاح اور یہی سفینہ نجات ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی وفات سے چند ماہ پیشتر سال نو کے پیغام میں جو یکم جنوری 1938ء کو ریڈیو لاہور سے نشر کیا گیا کہا:
’’تمام دنیا کے ارباب فکر دم بخود سوچ رہے ہیں کہ تہذیب کے اس عروج اور انسانی ترقی کے اس کمال کاانجام یہی ہونا تھا۔ کہ ایک انسان دوسرے کی جان و مال کے دشمن بن کر کرہ ارض پر زندگی کا قیام ناممکن بنا دیں۔ دراصل انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے اور جب تک دنیا کی تمام علمی قوتیں اپنی توجہ کو احترام انسانیت پر مرکوز نہ کر دیں یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی۔ قومی وحدت بھی ہرگز قائم و دائم نہیں۔ وحدت صرف ایک ہی معتبرہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جو رنگ و نسل و زبان سے بالا تر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت ‘ اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو ختم نہ کیا جائے گا‘ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا اور اخوت وحریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی نہ ہوں گے۔ خداوند کریم حاکموں کو انسانیت اور نوع انسانی کی محبت عطا فرمائے۔

ڈاکٹر سید اکرم اکرام

ای پیپر دی نیشن