سانحہ گوادر: حملہ آور ایران سے آئے، کارروائی کی جائے، باڑلگائیں گے، شاہ محمود

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/ بی بی سی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ گوادر میں سیکورٹی اہلکاروں پر حملے کے ذمہ داروں کی کمیں گاہیں ایرانی سرحد کے اندر ہیں اور ایران کو اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ یہ بات انہوں نے وزارت خارجہ کے دفتر میں ایک نیوز کانفرنس میں کہی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا چند روز قبل ’ ہمارے سپاہیوں کو جیسے ہاتھ باندھ کر شہید کیا گیا پوری قوم غم و غصہ میں ہے اور جاننا چاہتی ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ایک اتحاد سامنے آ چکا ہے جو بی آر اے کے نام سے پہچانا جاتا ہے جس میں کئی بلوچ دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں انہوں نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اس لئے اب تک خاموش تھے کیونکہ بقول ان کے ’جب تک ان کے پاس مصدقہ اطلاعات نہیں ہوں گی وہ تب تک انڈیا کی روایت دہراتے ہوئے الزام تراشی نہیں کریں گے۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ’میرے پاس اس مصدقہ اطلاعات ہیں جو میں شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ یہ بلوچ دہشت گردوں کی کارروائی ہے اور اس کے کیمپس ایرانی سرحد کے اندر ہیں۔ ہم نے تحقیق و تصدیق کے بعد ایرانی حکام کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔ ان کیمپس کے مقامات کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے اور ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ ایرانی بھائی ان تنظیموں کے خلاف ایکشن لیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم اپنے افغان بھائیوں سے بھی ان کے خلاف کارروائی کی توقع کر رہے ہیں کیونکہ بی آر اے کے تانے بانے وہاں بھی جاتے ہیں۔ ان کی لیڈرشپ کی گاہے بگاہے وہیں نشاندہی ہوتی رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے امن کے لئے پاکستان سے جو ہو سکتا ہے وہ کر رہے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ وہ بھی خیرسگالی کے اس جذبے کے تحت ہماری مدد کریں گے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس فورنزک شواہد موجود ہیں۔ جنہیں استعمال کر کے اس واقعے کے مجرمان کو پکڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ اس راستے کو استعمال کیا گیا۔‘ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ان کی ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہے جس میں انہوں نے پاکستانی قوم کے جذبات اور اپنی توقعات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ ان کے بقول ایرانی وزیر خارجہ نے یقین دہانی کروائی ہے وہ نہ صرف اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی وزیراعظم اتوار کو ایران کے دورے پر جا رہے ہیں جہاں اس حوالے سے مزید اقدامات پرتبادلہ خیال کیا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے کچھ اقدامات پہلے ہی اٹھا رکھے ہیں اور وہ اس سرحد کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے اٹھائے گئے ہیں تاہم ان میں مزید بہتری کی جا سکتی ہے۔ سرحد پر سیکورٹی بڑھانے اور علاقے کو محفوظ بنانے کی غرض سے چند اہم اقدامات کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کی تفصیلات وزیر خارجہ نے بتائیں۔ 1 ۔ ایک نئی سدرن (جنوبی) کمانڈ تشکیل دی گئی ہے جو علاقے میں نگرانی اور فوری ردعمل کا کام کرے گی۔ اس کا مرکز تربت میں قائم کیا گیا ہے تاکہ یہ سرحد کو پہلے سے زیادہ محفوظ بنا سکے۔ 2 ۔ ایران سے ملحقہ سرحد کی بہتر انتظام کے لئے پاکستان نے ایک نئی کور ’فرنٹیئر کور‘ بھی بنائی ہے۔ 3 ۔ ایران اور پاکستان کے باہمی مشاورت سے یہ طے کیا کہ سرحد کو پرامن رکھنے کے لئے چند بارڈر سنٹرز بنائے جائیں گے۔ 4 ۔ سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ مہنگا اقدام ہے تاہم اس کی اہمیت کے لئے یہ ضروری ہے۔ جن علاقوں کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہوتا ہے وہاں باڑ کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ہے۔ 950 کلو میٹر طویل یہ باڑ لگائی جائے گی۔ 5 ۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سرحدی گشت میں ربط پیدا کیا جائے گا۔ 6 ۔ سرحد نگرانی کے لئے ہیلی سروس بھی شروع کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا ماضی میں ایرانی اہلکار بھی اغواء کر کے پاکستان میں لائے گئے تو پاکستان نے جو کردار ادا کیا وہ ایران سے پوشیدہ نہیں۔ ہم ایرانی توقعات پر پورا اترے۔ ہم بھی ایران سے اسی نوعیت کی واضح کارروائی کی توقع کریں گے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مذاکرات ثبوت موجود نہیں کہ دہشتگرد ایران سے آئے تھے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ایران میں دہشتگردوں کے ٹریننگ سمیت موجود ہیں بلوچ دہشتگرد تنظیموں کے اتحاد کے کیمپوں کی ایران میںلوکیشنز کا پتہ چلا لیا ہے بلوچ گروہ کو ایران کی سرزمین سے مدد فراہم کی گئی۔
اسلام آباد (صباح نیوز+ آئی این پی) پاکستان نے گوادر میں شہید کئے گئے 14 افراد کے قاتلوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر ایران سے شدید احتجاج کیا ہے۔ وزارت خارجہ نے اس سلسلہ میں احتجاجی مراسلہ اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانہ کو بھجوا دیا ۔ احتجاجی مراسلہ میں کہا گیا گوادر میں پاکستانیوں کو شہید کرنے والے پاک ایران سرحد کے قریبی علاقہ سے آئے اور فرار ہوکر اسی علاقہ میں روپوش ہو گئے۔ وزارت خارجہ کے مطابق اس افسوسناک واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیموں کے ایک گروپ نے تسلیم کی ہے جس کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان نے پہلے بھی ایران سے کئی بار مطالبہ کیا۔ احتجاجی مراسلہ میں یہ بھی کہا گیا پاکستان نے ایرانی علاقہ میںاس گروہ کی کمین گاہوں ، تربیتی کیمپس اور لاجسٹک کیمپوں کی اطلاعات اور شرپسند سرگرمیوں کی تفصیلات پہلے بھی تہران کو بھیجیں مگر افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ایران نے اب تک ان گروہوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ ایف سی یونیفارم میں ملبوس 15سے 20دہشت گردوں نے تین سے چار مسافر بسوں کو کوسٹل ہائی وے پر بزی ٹاپ کے مقام پر روکا اور بسوں میں مسافروں کی شناخت پریڈ کے بعد 14 افراد کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا جن میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ پاکستان نے مراسلہ میں کہا گیا۔ پاکستان کی جانب سے انٹیلیجنس شیئرنگ کے باوجود ایران کی جانب سے ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔پاکستان نے ایران سے ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثناء اثرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے گوادر میں دہشتگرد واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد اور ان کے سہولت کار معاون مسلم ریاستوں کے تعلقات سے خوفزدہ ہیں ایک بیان میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ گوادر میں دہشتگردی واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں دہشتگرد اور ان کے معاون مسلم ریاستوں کے تعلقات سے خوفزدہ ہیں انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے حملہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ تہران سے قبل کیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن