اقبال مرد مومن

Apr 21, 2020

حفیظ الرحمن قریشی

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کے متعدد پہلو ہیں۔ ہر پہلو بحث کیلئے ایک جامع تصنیف کا متقاضی ہے کیونکہ اُن کی زندگی کا ہر پہلو کامل و جامع ہے۔ اگر مفکر ہیں تو فلسفہ و فکرکے امام‘ شارح ہیں تو ایسے کہ مجتہد ۔ سیاستدان ہیںتو مدبر‘ ملت کے کھیون ہار ، راہبر و راہنما، خالی و خولی صوفی ہی ہنس بلکہ خدا نما… انگریز نے سر کا خطاب دیا۔ ملت سے حکیم الامت کا اعزاز پایا۔ غلامی کے اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی قوم کو روشنی دکھائی۔ منزل کا پتہ بتایا۔ ملت کی قیادت کیلئے مردِ مومن قائد اعظمؒ کاانتخاب اور پاکستان کا وجود اُن کے فکر کی پاکبازی اور بلند نگاہی کا بین ثبوت ہے۔ پاکستان کے قیام کیلئے ملت اسلامیہ کی بے مثال جانی و مالی قربانیوں اور قائد اعظمؒ کی مومنانہ قیادت کے ساتھ ساتھ اس مردِ مسلمان کی دعائیں بھی شامل ہیں جس کی راتیں سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رومی سے عبارت تھیں۔ اقبال کو یہ مرتبہ مقام کیوں ملا۔ انہوں نے خود نمائی کا درجہ کیسے پایا۔ فلسفہ و فکر کے امام کیوں ہوئے۔ مجتہد کیوں ٹھہرے۔ یہ محض مکتب کی کرامت نہ تھی بلکہ یہ فیضان تھا‘ اللہ اور اسکے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت اور قرآن کریم سے شیفتگی کا۔ ضرب کلیم میں اپنی ایک نظم مردِ مسلمان میں فرماتے ہیں …؎
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!
یا ایک اور جگہ فرماتے ہیں…؎
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
مومن، قاری اور قرآن کی تشریح کیلئے بہت وقت چاہئے۔ اس مختصر تحریر میں اقبال کے دل و نگاہ کی مسلمانی کے بارے میں چند باتیں پیش خدمت ہیں:۔ علامہ مرحوم کے بعض سوانح نگاروں نے ایک واقعہ لکھا ہے جو اس طرح ہے۔ علامہ مرحوم لاہور میں اپنے دولت کدے میں تشریف فرما تے کہ ایک درویش خدمست تشریف لائے۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد حضرت علامہ نے کہا۔ حضرت میرے لیے دعا کیجئے، کہنے لگے۔ مال و دولت مانگتا ہے۔ کہا نہیں۔ اولاد؟ کہا نہیں۔ خدا سے ملنا چاہتے ہو؟ کہا…! ہاں…!! اور ساتھ ہی آنکھیں چھلک آئیں۔ پھر فرمایا نہیں سائیں بابا۔ وہ سمندر ہیں میں قطرہ ہوں، اب تو کچھ ہوں۔ لیکن سمندر میں مل کر کچھ بھی نہیں ہوں گا، قطرہ اگر اپنا علیحدہ وجود ہی کھو دے گا تو وصل سے لذت یاب ہونے کیلئے وہ باقی ہی نہیں رہے گا۔ عبد اور معبود کے فرق کوکتنی خوبصورتی سے بیان کر گئے جس نکتے کو بڑے بڑے فلسفی نہ حل کر سکے اسے کملی والے کے اس غلام نے بڑی سادگی کے ساتھ ایک ہی جملے میں صاف کر دیا۔ یہ مقام و مرتبہ فنا فی اللہ اور عاشق رسول ہونے کا ثمرہ تھا…!!
عشقِ رسول کے سلسلے میں ایک اور واقعہ سنئے۔ جو ماہنامہ جوہر دہلی کے ایک شمارہ سے لیا گیا ہے۔ یہ شمارہ علامہ اقبال کے انتقال کے بعد 1938ء میں شائع ہوا تھا۔ لکھا ہے کہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے کسی قانونی مشورہ کیلئے اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کوجس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کیلئے گئے تو ہر طرف عیش و عشرت کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً اُنکے دل میں خیال آیا کہ جس رسول پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں اس نے بوریئے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی ، یہ خیال آنا تھا کہ آنسوئوں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کیلئے ناممکن ہو گیا۔ اُٹھے اور برابر غسلخانے میں جا کر ایک کُرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو ملازم کو بُلا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اس غسلخانے میں بچھوائی۔ جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے…!! رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات مبارک کے ساتھ انکی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے مگر یہ شائد کسی کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے اپنے سارے فلسفے اور اپنی تمام عقلیت کو رسول عربیؐ کے قدموں میں ایک متاعِ حقیرکیطرح نذر کر کے رکھ دیا تھا۔ اُن کی زندگی اول تا آخر…؎
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
کا آئینہ دار تھی۔

مزیدخبریں