اقبال فلسفی ، سیاست دان، ادیب اور شاعر تھے۔جنہوںنے توحید، رسالت، عشقِ رسولؐ، فکرِ آخرت، اتباع رسولؐ، اسلاف سے محبت اور مسلمانوں کو اپنی عظمتِ رفتہ یاد دلا کر اُن میں خود اعتمادی اور قوت کار پیدا کی۔ ہر اُس جذبہ کو اُبھارا جو مسلمان کو پھر سے حقیقی مسلمان بنا دے۔ عملی اسلامی انقلاب کے لئے مسلمانوں کو اُبھارا۔ مغربی تہذیب سے متاثر ہو نے والے نوجوانوں کو خبردار کیا کہ مغربی تہذیب کی چمک دھمک جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔ مغربی نظامِ حکومت کو ناپسند کیا۔ اُنہوں نے اپنی ذات کا شعور اور خود اعتمادی پیدا کرنے کی تلقین کی جسے خودی سے تعبیر کیا۔ خودی کو رضائے الہیٰ کے حصول کا ذریعہ قرار دیا جو حاصل ہو جانے کے بعد ـ"خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے"۔ یاس و قنوط کی زنجیروں کو توڑ کر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کر کے کاروانِ ملت کو اسلاف کی مثالیں دے کر جھنجوڑا اور احساسِ زیاں اُنکے دلوں میں پیدا کر کے جادئہ عظمت کی طرف روا ں دواں کیا۔ اسلامی ملت کو اُنکے عظمت و رفعت سے روشناس کر کے بھولے ہوئے مرتبہ سے آگاہ کیا اور اُن کو اللہ کا نائب ہونے کا مرتبہ یاد کرایا۔ اور جن مسلمانوں نے بد دل اور مایوس ہو کر رہبانہ زندگی اختیار کر لی تھی اُن کو خبردار کیا کہ کہیں اللہ اپنا قانون اسی پرنہ منطبق نہ کر دے۔ بعض لوگ علامہ اقبال کو صرف شاعر کے حوالے سے جانتے ہیں۔ حالانکہ اُن کی نگائہ حکمت و بصیرت زندگی کے ہر شعبہ کو خوب پرکھ اور جانچ کر اُس کے حقیقی مقام پر رکھتی تھی۔ اس لئے علامہ اقبال شاعری کو قوم کو جگانے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے جو اُنہوں نے کرئہ ارض میں اپنی گرمئی گفتار اور جوشِ کردار سے نئے رنگ بھر کر اپنا نام نمایاں کر لیا تھا۔ اُن کو یقین تھا کہ اگر مسلمان قوم کے نوجوانوں کو تعلیم وتربیت ایسے معلمین کے ذریعہ ہو جو اُن میں نگہ کی سربلندی، سخن کی دلنوازی اور جاں کی پُرسوزی پیدا کر سکیں اور صحیح خطوط پر اپنی زندگیاں استوار کر سکیں تو اللہ تعالیٰ یقینا اُن کو نیابتِ الہیٰ عطا کریگا جس کے سامنے فرشتے بھی سجدہ کر کے فخر محسوس کرینگے۔ حکمرانوں کے رعب اور دبدبے سے خائف ہو کر مسلمانوں کی زندگیوں پر انفرادی اور اجتماعی جمود طاری ہو جانا اُن کو ایک نظر نہ بھاتا تھا۔ چنانچہ علامہ اقبال کو اپنے زورِ کلام سے مسلمانوں میں حیات ِتازہ پیدا کرنے کا بے حد خیال تھا۔ علامہ اقبال کو اُن کی ملی اور اسلامی خدمات کے پیشِ نظر متعدد القاب سے یاد کیا جاتا ہے جن میں سے چند یہ ہیں۔ حکیم الامت، شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان اور مصورِ پاکستان۔ کلامِ اقبال پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ یورپی ممالک اور عالمِ اسلام میں اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ یہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، ترکی اور عربی زبانوں میں منتقل ہو چکا ہے۔ اور مصری سکالروں نے پورے کلامِ اقبال کو عربی زبان میں منتقل کر لیا ہے۔ علامہ اقبال کے عقائد اور عمل کا مآخذ چونکہ قرآنِ حکیم اور سُنت رسولؐ ہے اس لئے اُنہوں نے حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں اپنے کلام میں التجا کی تھی کہ اے رحمتِ اللعالمینؐ اگر میں نے مسلمانوں کے سامنے سچی باتیں کی ہیں تو اللہ کے حضور میری سفارش فرمائیے کہ میرا عشق ِ حق عمل سے ہمکنار ہو۔ اُنکے کلام کو بے حد شہرت حاصل ہوئی۔اُن میں اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق، بانگِ درا، زبورِ عجم، جاوید نامہ، بالِ جبرئیل، ضرب کلیم اور Construction of Religion thought in Islamشامل ہیں۔ارمغانِ حجاز اُن کی وفات کے بعد شائع ہوئی تھی۔ اُنہوں نے سچائی، دلیری، خود اعتمادی، انکساری، امن پسندی، محنت، مساوات، صبر و تقویٰ، خدمت، دوسروں کے حقوق کا تحفظ، رواداری اور محبت کا جو درس حضورؐ اور خلفائے راشدین اپنے عہد میں دے چکے تھے او رجسے مسلم قوم بھول چکی تھی اُسے قومی شاعر نے اِن الفاظ میں دوبارہ یاد کرا دیا تھا۔ "پرے ہے چراغ نیلی فام سے منزل مسلمان کی۔ ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے"۔ قرآنِ حکیم جو اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ ہے علامہ اقبال نے اُسے پڑھنے، سمجھنے اور اُس سے ہدائیت حاصل کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ اُنکے رگ و پے میں عشقِ رسولؐ اس قدر سرایت کر گیا تھا اور ذہن و فکر پر چھا گیا تھا کہ اس کا اظہار اُن کی چشمِ نم ناک اور دیدہ تر سے ہوتا تھا۔ جونہی حضورؐ کا اسمِ گرامی لیا جاتا اُن پر رقعت طاری ہو جاتی اور شدتِ جذبات کی وجہ سے اُنکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔ وہ مردِ قلندر جس نے اپنے نگاہ حکمت و بصیرت اور گرمئی گفتار وجوشِ کردار سے قوم کو جگایا شاہی مسجد لاہور کے پائیں ابدی نیند سو رہا ہے جہاں نذرانہ عقیدت پیش کرنے والوں کا دن رات تانتا بندھا رہتا ہے۔