علامہ ہر دور کے شاعر

آج صرف پاکستان ہی نہیں دنیا میں جہاں بھی مسلمان اور شاعری کو سمجھنے والے لوگ موجود ہیں وہ علامہ اقبال کی برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منا رہے ہیں ۔آج تو ویسے بھی امت اور قوم بلکہ اقوام عالم کرونا کے عذاب میں مبتلا ہے۔ایسے میں علامہ اقبال کی یاد جو ہمیشہ امت کے غم میں ڈوبے رہے زیادہ شدت سے آرہی ہے۔ اقبال نہ صرف عظیم شاعر بلکہ بڑے فلسفی بھی تھے۔ اقبال کی فکر انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا خوبصورتی سے احاطہ کرتی ہے۔ اقبال ، ماضی، حال اور مستقبل کے شاعر ہیں۔ اقبال ایک ہمہ جہت و ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ اقبال کی شاعری میں تہذیب طرز معاشرت معاشی اور مذہبی معاملات کے ساتھ ساتھ، تصوف بھی شامل ہے۔ اقبال کو شاعری کے علاوہ فلسفہ اور اقتصادیات سے بھی دلچسپی تھی۔ اقبال اپنی نسل پر خصوصی توجہ رکھتے تھے اور اْن سے امیدیں وابستہ کیں۔ اقبال ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کے شاعر تھے۔ علامہ اقبال کی شاعری نے جہاں برصغیر کے مسلمانوں اور حریت پسندوں کو ستاروں سے آگے ایک نئی دنیا کی طرف رہنمائی کی، وہاں اپنے دور کے مسلمانوں میں پائی جانے والی خرابیوں، خرافات، خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کو بھی برملا کیا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں مسلمانوں کو اپنے زریں اور سنہری ماضی کی یاد دلا کر حال کی اصلاح کا پیغام دیا گیا ہے، مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل "پدرم سلطان بود" رہی ہے، وہ ماضی میں جینا پسند کرتے ہیں، لیکن حال میں سر اٹھا کر زندہ رہنے کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ علامہ اقبال نے ماضی کے جھروکوں میں امت مسلمہ کو مغربی تہذیب، استکبار اور سامراجی قوتوں سے آزادی کا آفاقی پیغام دینے کی بھرپور کوشش کی ہے، اسی لیے بعض اوقات اقبال پر مثالیت پسندی کی بھپتی کسی گئی۔ اقبال اپنی شاعری میں جدید مغربی تہذیب اور سامراجی جمہوریت کو دلائل کیساتھ مسترد کرتے ہیں اور "ابلیس کی مجلس شوریٰ" نامی نظم میں ایک مناظرے کے پیرائے میں عہد حاضر کی ثقافتی یلغار اور جمہوری نظام کو بڑے واضح انداز میں بیان کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ابلیس کی زبانی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
میں نے دِکھلایا فرنگی کو مْلوکیّت کا خواب
مَیں نے توڑا مسجد و دَیر و کلیِسا کا فسوں
مَیں نے ناداروں کو سِکھلایا سبق تقدیر کا
مَیں نے مْنعِم کو دیا سرمایہ داری کا جْنوں
امت مسلمہ کے مصائب سے علامہ اقبال آگاہ اور اسے ان مصائب سے نکالنے کیلئے اپنے کلام میں تقلین کرتے رہے۔
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو کہ مسلمان بھی ہو
علامہ اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ آج مسلمان دنیا میں پریشان حال ہیں ہر جگہ ستائے جارہے ہیں اوراپنے اعمال کی وجہ سے ذلت و رسوائی حاصل کررہے ہیں ایسے میں ہمیں سید، مرزا اور افغان ہونے پر ناز ہے مگر خد انے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور ہمارا نام مسلمان رکھا جس کا احساس ہمیں نہیں ہے ہم اپنے رب کے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقوں کو اختیار کررہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں اوراپنے رب سے اپنے تعلقات کو مضبوط کریں۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
اس شعر میں علامہ اقبال نے امت مسلمہ کو اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کیونکہ یہی وہ امت ہے جو ہر وقت انقلاب برپا کرسکتی ہے اگر وہ اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا نہ کرسکی تو اس کا انجام موت ہی ہوگا۔ لہٰذا اس شعر کے ذریعہ علامہ نے امت مسلمہ میں جذبہ ایمان پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کانبی دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اقبال ان اشعار میں کہتے ہیں کہ قوم کا فائدہ اور نقصان ایک ہی ہے اور ہمارا رب بھی ایک اور دین وایمان بھی ایک ہے لیکن ہمارے اندر اتحاد نہیں ہے۔ ہم مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک جسم کی طرح ہوجائیں اور ہمیشہ متحد رہیں دیگر قوموں کے مقابلہ میں ہم تب ہی ترقی کرسکتے ہیں ورنہ ہمیشہ نقصان میں رہیں گے۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر دی نیشن