فکرِ اقبال اور کشمیر

فکرِ اقبال کی کئی جہتیں ہیں علامہ اقبال اپنے فکر و فلسفہ سے انسانوں کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ہمت و جرأت بخشتے ہیں کہ زندگی کے مختلف مسائل کا حل وہ خود تلاش کریں اور انکا مقابلہ کریں۔ انکے تصورِ حرکت و عمل نے تصورِ خودی کو عملی طور پر جاندار بنا دیا۔ فکرِ اقبال میں بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے کئی پہلو ملتے ہیں۔
؎کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
مسلمان برصغیر پاک و ہند کا ہو یا دنیا کے کسی بھی گوشے کا سب کیلئے علامہ اقبال تربیتِ خودی اور استحکامِ خودی کا درس دیتے ہیں تاکہ فرد اپنی اصلیت سے آگاہ ہو سکے۔ اپنی پنہاں خوبیاں اجاگر کر کے غلامی کے بجائے آزادی کی فضائوں میں سانس لے سکے۔
؎بے خبر جوہرِ آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
یہی وجہ ہے کہ فکرِ اقبال پوری دنیا میں غفلت سے چھٹکارا حال کرنے اور ظلمت کے اندھیروں میں روشنی کے چراغ روشن کرنے کی تلقین کرتاہے۔ مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال کا وطنِ مالوف کشمیر ہے انکے آبائو اجداد 19 ویں صدی کے آخر میں کشمیر سے سیالکوٹ ہجرت کر گئے لیکن انکی خاندانی یادیں اسی طرح تازہ دم رہیں۔ ان کا دل کشمیریوں کے مسائل حل کرنے میں ہمہ وقت کوشاں رہا یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر و فلسفہ، جدوجہد آزادیٔ کشمیر میں خصوصی مقام رکھتے ہیں۔ وہ مستقبل کے مفکر ہیں انہیں کشمیر کے لہو رنگ ہونے کا احساس تھا کہ پُرامن کشمیری مسلماں کتنے مجبور و محکوم ہیں۔ انہوں نے ارمغانِ حجاز میں فرمایا تھا۔
؎آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جِسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
سینۂ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرغوبِ سلطان و امیر
کشمیر جغرافیائی لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے لیکن تاریخی لحاظ سے مظلوم ہے۔ کشمیر کا رقبہ 84471 مربع میل ہے جس کی طویل سرحدیں پاکستان، بھارت، افغانستان، روس ، چین ، ترکستان اور تبت سے ملتی ہیں۔ پاکستان سے ملنے والی کشمیر کی سرحد تقریباً 700 میل یعنی 1120 کلومیٹر لمبی ہے۔ 95 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ باقی صرف 5 فیصد ہندو اور سکھ ہیں لیکن چونکہ بھارت کا قبضہ اور تسلط ہے اس لیے بھارتی حکومت نے اپنے آئین میں خصوصی تبدیلی کر کے کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کی فضول اور بیوقوفانہ حرکت کی ہے۔ 9 لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ بچوں ، جوانوں، مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم روا رکھا ہوا ہے۔ ظلم و استبداد کی انتہا کر دی ہے ، کرفیو لگا ہوا ہے۔ خوراک اور دوائیوں ان تک نہیں پہنچ رہیں۔ گاندھی کے فکرِ عدم تشدد کی نفی کر دی گئی ہے۔ پوری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو خود مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں لے گئے تھے۔ وہاں گیارہ قراردادیں کشمیری خود ارادیت اور آزادی کے لیے منظور کی گئیں تاکہ کشمیری آزادانہ زندگی گزار سکیں لیکن اقوامِ متحدہ کی ان گیارہ قراردادوں کو بھارتی حکومت نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس دکھ اور درد کو محسوس کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا:۔
؎بادِ صبا اگر بچینوا گزر کئی
حرمے زما بہ مجلسِ اقوام بازگو
دہقاں و کِشت وجود و خیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
خطۂ کشمیر میں بسنے والے عظیم لوگ فطری طور پر محنتی ہیں وہ دست کاری میں مہارت رکھتے ہیں لیکن ان کی محنت و مزدوری کا صحیح معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ علامہ اقبال نے پہلی بار 1921ء کشمیر کا دورہ کیا۔ سری نگر کی فیکٹری میں انہوں پشمینہ / ریشم بنتے دیکھا اور ان سے اشیاء بنتے ہوئے بھی ملاحظہ کیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہندو بنیا ان کا استحصال کرتے ہیں اور ڈوگرہ حکومت ان کی کوئی داد رسی نہیں کرتی۔ کشمیریوں کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ علامہ اقبال یہ ظلم دیکھ کر بے حد رنجیدہ ہوئے۔ کشمیری مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے جدوجہد شروع کر دی کہ وہ خوشحال اور آزاد زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے کشمیری مسلمانوں کو صحیح معاوضہ نہ ملنے اور غربت کی زندگی گزارنے کا ذکر اپنی مشہور زمانہ نظم ساقی نامہ میں کیا ہے۔ علامہ نے فرمایا کہ ان کی رگوں میں کشمیری چنار کے سرخ پتوں جیسا خون دوڑ رہا ہے۔ انہیں کشمیر اور کشمیری عوام سے بے حد لگائو تھا۔ ساقی نامہ میں کشمیری مسلمانوں کی کسمپرسی بیان کی ہے کہ ریشم تیار کرنے والے مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال اپنے کشمیری بھائیوں کی حالتِ زار کے بارے میں بے حد فکر مند تھے۔ انہوں نے ساقی نامہ میں خدا سے دعا کی ہے۔ اے اللہ کشمیریوں کے دِل میں انقلاب پیدا کر دے تاکہ وہ عزت و تکریم کی زندگی گزار سکیں۔ علامہ اقبال غلامی کی زندگی گزارنے والوں کو ہمت و جرأت اور حرکت و عمل کا درس دیتے ہیں کیونکہ خاموشی اور غلامی میں خودی زنگ آلود ہو جاتی ہے اس لیے خود اپنے اندر انقلاب پیدا کرنا چاہئے۔ اقبال کا تصورِ خودی اسی بات کو اجاگر کرتا ہے کہ اپنی قابلیتوں، اہلیتوں اور صلاحیتوں کو استعمال میں لایا جائے۔ خودی موضوعی ہوتی ہے اگر فرد خود فعال نہ ہوتو بیرونی طاقتیں اسکی تمام تر صلاحیتوں کو مردہ کر دیتی ہیں اس لیے ہمتِ مرداں مدد خدا کے مصداق اپنے اندر انقلاب پیدا کرنا چاہئے یہ پیغام کشمیری مسلمانوں سمیت دنیا بھر کیلئے ہے۔
؎خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے
’’بال جبریل‘‘ میں مشہور نظم ’’ساقی نامہ‘‘ میں علامہ اقبال نے اس پُربہار وادی کی منظر کشی کی ہے اور کشمیری نوجوانوں کو جرأتِ رندانہ کا درس دیا ہے۔ بتایا ہے کہ نیلی نیلی فضا اور ہوا میں ایسا سرور ہے کہ پرندے بھی موج مستی کرتے ہیں اور اپنے آشیانوں سے نکل کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انساں ہمت کرے تو کیا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب وہ چاہتا ہے تو زمانے کے انداز راگ اور ساز بدل جاتے ہیں…؎
اٹھا سایا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے
علامہ اقبال کی شاعری میں کمال سرور ہے، بتدریج فکری ارتقاء ہے جس سے انسان کو زمیں سے اٹھا کر کامیابی و کامرانی سے آسماں تک پہنچا دیا ہے۔ اگر کوئی فکر اقبال سے فکر و تدبر کرے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم جس عالم فانی میں رہ رہے ہیں وہ صرف موت سے زیر ہو جاتا ہے جہاں زندگی صرف خوردونوش بن کے رہ گئی ہے۔ یہ زندگی تو خودی کی پہلی منزل ہے تو مسافر ہے‘ لیکن تیرا ٹھکانہ یا نشیمن یہ جہاں نہیں ہے؎۔
تری آگ اس خاک داں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر
طلسم زمان و مکان توڑ کر
علامہ اقبال نے نئی نئی تراکیب استعمال کی ہیں جو دانشوروں کیلئے سوچ و بچار کے در کھول دیتی ہیں۔ فکر اقبال میں کشمیری مسلمانوں کو جہان تازہ کی خوشبو و مہک ملتی ہے۔ اقبال مختلف استعاروں ‘ اشاروں اور تعلیمات کے بہانے سوچنے والوں کو نئی فکر اور تقلید کرنے والوں کو نئی راہ دکھاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن