دانائے راز

عیشتہ الرّاضیہ پیرزادہ


یہ سال 1908 میں برسات کے دن تھے۔علامہ اقبال لندن سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرکے لاہور پہنچ چکے تھے۔یہی وہ وقت ہے جب اقبال کا دور وکالت اپنے آغاز کی طرف اٹھان بھرتا ہے۔علامہ کی شاعری کے حوالے سے تو ذکر ہوتا ہی رہتا ہے۔مگر بہت کم ہی اس بات کا چرچا سننے کو ملتا ہے کہ اقبال ایک کامیاب وکیل بھی تھے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال مرحوم و مغفور اپنے والد کی پیشہ وارانہ زندگی کے ابتدائی دور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’سال ڈیڑھ سال کے عرصہ میں معلم کی حیثیت سے اور وکالت کے سلسلے میں اقبال کو اس قدر تگ و دو کرنا پڑتی تھی کہ تمام وقت اسی میں صرف ہو جاتا تھا پورا دن تدریسی مشاغل یا مقدمات کی پیروی کرنے میں گزرتا، شام کو موکلوں سے ملاقات کیلئے دفتر میں بیٹھنا پڑتا اور رات گئے تک اگلے روز کے مقدمات کی تیاری کرتے رہتے‘‘
سر علامہ اقبال کے بارے میں ہم اپنے بچپن سے ہی یہ سنتے آرہے ہیں کہ وہ فلسفی شاعر تھے اور علامہ نے کبھی وکالت کو پیشہ وارانہ انداز سے نہ اپنایا,اپنی تمام تر توجہ شاعری اور تعلیم تدریس کے مشاغل تک محدود رکھی۔اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شادی لال کا وہ تبصرہ بڑا مشہور ہے کہ" وہ اقبال نام کے شاعر کو تو جانتے ہیں لیکن اس نام کے وکیل کو نہیں جانتے"۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ریاست حیدر آباد کے 2 بار 23 سال تک وزیراعظم رہنے والے راجہ کشن پرشاد شاد جو خود بھی شاعر،اردو دان،نعت و حمد خوا ںتھے،سر اقبال کی وکالت کے نہ صرف معترف تھے بلکہ اسی سبب انہوں نے حیدرآباد دکن ہائی کورٹ میں علامہ کو جج کے عہدے پر فائض کرنے کیلئے کوشش بھی کی ۔راجہ کشن علامہ اقبال کے بہت قریبی دوست تھے۔ــ’’خطوط اقبال بنام شاد‘‘میں علامہ اور راجہ کشن کے درمیان 99 خطوط کا ذکر ہے جو حیدرآباد دکن کی ادبیات اکادمی میں محفوظ ہیں۔ایک کتاب ’’قانون دان اقبال‘‘ کے مطابق ’’اقبال نے 1908ء کے اواخر میں وکالت کے پیشے میں قدم رکھا تو اس زمانے میں آل انڈیا رپورٹر، پنجاب لاء رپورٹر اور انڈین کیسز نامی تین بڑے قانونی رسالے شائع ہوتے تھے۔ 1908ء سے 1934ء تک کے ان قانونی رسائل کے ورق ورق مطالعے کے نتیجے میں ایک سو چار ایسے فیصلہ جات دستیاب ہوتے ہیں جن میں بیرسٹر محمد اقبال کسی نہ کسی فریق کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ وفات اقبال کے بعد گزشتہ پون صدی میں آبادی میں بے پناہ بڑھوتری اور ججوں کی تعداد میں کئی گنا اضافے کے باوجود اب بھی ایسے وکلاء کی تعداد خاصی محدود ہے جن کے ایک سو سے زائد مقدمات قانونی رسائل میں شائع ہو چکے ہوں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا کہ اقبال محض برائے نام وکالت کرتے تھے غلط فہمی اور لاعلمی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔بیرسٹر اقبال کی وکیلانہ قابلیت بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اقبال کے مقدمات سے متعلق ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پچاس فیصد سے زیادہ مقدمات میں کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابیاں انہوں نے اپنے وقت کے نامی گرامی وکلاء کے مقابلے میں حاصل کیں۔ قانونی رسالوں میں 103 مقدمات کی اشاعت ملتی ہے ان میں 95 فیصد سے زائد مقدمات کی نوعیت دیوانی قوانین سے تعلق رکھتی ہے۔علاوہ ازیں نوابزادہ لیاقت علی خان کے خاندانی معاملات اور تقسیم جائیداد کے تنازع میں ریاست کرنال، نواب بہاولپور کی وائسرائے کے سامنے ایک درخواست کی پیروی کیلئے بمبئی، کچھ دیوانی مقدمات کی پیروی کیلئے سرینگر اور کچھ قانونی معاملات کے سلسلے میں لدھیانہ اور گجرات کے سفر بھی اقبال نے اختیار کئے جبکہ دیگر مقدمات کے سلسلے میں پٹیالہ، پٹنہ، دہلی، لدھیانہ، گجرات گئے اور نواب ارشاد علی خان کے مقدمہ کی پیروی کیلئے اپریل 1922ء میں شملہ گئے۔لہذا ثابت ہوتا ہے کہ بطور وکیل علامہ اقبال کا نام جانا جاتا تھا کہ کئی کئی دور کے قصبوں،شہروں دیہاتوں سے لوگ اپنے مقدمات کی پیروی کیلئے اپنا وکیل مقرر کرتے تھے۔
کتاب "روزگار فقیر" کے مطابق "ڈاکٹر صاحب جس زمانے میں بیرسٹری کرتے تھے، عام طور پر اْن کے مقدمات قبول کرنے کی آخری تاریخ ہر مہینے کی 10ہوتی تھی۔اس وقت ڈاکٹر صاحب کے ماہانہ اخراجات، جس میں منشی طاہر اور علی بخش کی تنخواہ اور مکان کا کرایہ سب کچھ شامل تھا، سات سو روپے کے لگ بھگ تھے۔ جب اتنی رقم کے معاوضے کے مقدمات آ جاتے، تو مزید مقدمات لینے سے انکار کر دیتے۔بعض موکل اصرار کرتے کہ ہمارے مقدمے کی وکالت آپ ہی کو کرنی ہوگی، تو ڈاکٹر صاحب مشورہ دیتے کہ’’ آنے والے مہینے کی شروع کی تاریخوں میں آنا۔‘‘کاش آج کے وکیل بھی علامہ قبال کی طرح راست باز اور سچائی کے پیروکارہوجائیں تو ملک کے 90 فیصد معاشرتی مسائل سدھر جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن