2016میں لکھے جانے والے ناول کی کورونا وائرس سے حیرت انگیز مماثلت

جنوبی افریقہ کے ناول نگار ڈون میئر نے کہا ہے کہ مجھے اس بات سے ہرگز خوشی نہیں ہوئی کہ میرے لکھے ہوئے ناول کی کہانی سچ ثابت ہوئی، اس مہلک وائرس کے تباہ کن واقعات نے مجھے افسردہ کردیا ہے۔کرائم فکشن کے مصنف اور اسکرین رائٹر ڈون میئر نے کہا کہ “میں ان ہزاروں لوگوں کے دکھ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے، جو اپنی ملازمتوں سے محروم ہوچکے ہیں اور خوف کی زندگی بسر کررہے ہیں۔”مصنف نے اس ناول کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ افریقہ میں ایک شخص جس کو ایک خطرناک بیماری تھی، کیونکہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو(ایڈز کا مریض) تھا اور وہ اس کا علاج بھی نہیں کروا رہا تھا کیونکہ اس کی قوت مدافعت نہ ہونے کے برابر تھی۔مصنف نے لکھا کہ وہ  شخص ایک آم کے درخت کے نیچے جا کر لیٹتا ہے اور اسی درخت پر ایک چمگادڑ بھی موجود تھی، چمگادڑ میں ایک اور خطرناک قسم کا کورونا وائرس موجود تھا یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلنے والا تھا۔ناول نگار ڈون میئر کا ناول فیور (بخار) ایک ایسے باپ بیٹے کی ایک دل دہلا دینے والی کہانی ہے جو جنوبی افریقہ میں ایک ویران مقام پر رہتے ہیں، جان لیوا وائرس کے آنے کے بعد ملک کی 95فیصد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔اس کہانی کی مانند دنیا ایک عجیب و غریب نظارہ پیش کرتی ہے کہ جس میں سرحدیں بند ہوجاتی ہیں اور افراد ایک دوسرے سے محتاط ہوجاتے ہیں کیونکہ اسی میں ان کی بقاء ہے۔حیرت انگیز طور  پر چار سال قبل لکھی گئی اس کہانی میں وہی منظر ہے جو ہم آج 2020 میں دنیا میں دیکھ رہے ہیں  یہ سب کچھ ایسا ہی ہے جیسا اس ناول میں بیان کیا گیا۔مصنف  ڈون میئر کے اس ناول فیور (بخار) کی اشاعت کے چار سال بعد کوویڈ 19نامی بیماری جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل رہی  ہے۔61سالہ میئر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ناول فیور بہت سارے مختلف جذبات ، خدشات کی انتہا تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اپنے گھر میں قرنطینہ میں ہوں۔ڈون میئر کے اس ناول کو ایک شاہکار تحریر کے طور پر سراہا گیا، اور اس کا موازنہ امریکی ناول نگار کارمک مک کارتھی کے ناول ‘دی روڈ’ سے کیا گیا جس نے 2007 میں پلٹزر ایوارڈ حاصل کیا۔

ای پیپر دی نیشن