حضرت علامہ اقبال ؒ کو رسول رسالت مآبؐ سے والہانہ عشق تھا جو آپ کے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمد سے اجالا کر دے
نہ صرف یہ کہ علامہ اقبال نے امّتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ذاتِ محمدیؐ سے والہانہ پیغام دیا بلکہ اسی عشقِ رسالتؐ اور نسبت محمدی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ملتِ اسلامیہ کی بقا و دوام کا راز بھی قرار دیا اور یہی وہ انقلاب انگیز قوت تھی جس سے سامراجی طاقتیں خائف تھیں۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ، نیا صبح و شام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر
زوالِ اسلام کے اس دور میں اقبال ملتِ اسلامیہ میں عشقِ مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیغام کے ذریعے نئی روح پھونک کر اسے تباہی و ہلاکت سے بچانے کی فکر میں تھے۔ اسلام دشمن طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں اسی عشقِ رسالتؐ کی شمع بجھا دینے کا سوچ رہی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی نہ تو انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے اور نہ ہی ہزاروں تحریکیں انہیں اپنی منزل مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ یہ ایک خیال خام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ مغرب کی اسی سازش کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا۔
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
حضرت علامہ اقبالؒ نے ستمبر 1905ء میں اعلیٰ تعلیم (فلسفہ قانون اور تحقیقات علم) کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور سے تین سال کی رخصت حاصل کی اور پھر ولایت کا سفر اختیار کیا۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ مَیں نے فرنگی اساتذہ سے پڑھا۔اس وقت وہ تعلیم بڑی دلکش لگتی تھی۔ اساتذہ مختلف نظریات کا تعارف کراتے اور ان کے خلاف دلائل دیتے تھے۔یوں مَیں سمجھتا تھا کہ مَیں نے اعلیٰ درجے کا علم حاصل کر لیا ہے ،لیکن آج جب وجدانی علم سے مجھے آگاہی ہوئی ہے تو مجھ پر فرنگی اساتذہ کی فکر و نظر کے درس میں نمایاں فرق واضح طور پر نظر آجاتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ وہ علم دلائل پر مبنی تھا، اس کے باوجود حقیقت نمایاں ہونے کی بجائے پنہاں رہ جاتی تھی۔ اسلام کی روشن تعلیمات آپ کے رگ و پے میں اس قدر رچ بس گئیں کہ صلوٰۃ ودرود ہر وقت آپ کے دل میں موجزن اور زبان پر جاری و ساری رہتا تھا، لیکن دوسری جانب آپ نے یورپ جا کر تحصیل علوم کی خاطر علم و دانش وہاں کے اساتذہ سے سیکھا تو آپ کے عقائد ونظریات میں آمیزش پیدا ہو گئی۔ آپ نے ’’بال جبریل‘‘ میں اس حقیقت کی نشاندہی مندرجہ ذیل شعر میں کی ہے۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
جن ہستی کو نبوت سے پہلے امین اور صادق کے خطاب دئیے گئے اقبال کو ان عظیم ہستی سے عشق تھا۔اقبالؒ نے جب مغرب کے نظام تعلیم کو پرکھا تو پکار اٹھے
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
جب غلامی کی جڑیں گہری ہوجاتی ہیں تو انسان کی فکر پہ پہرے لگ جاتے ہیں، اس کی سوچ منجمد ہوجاتی ہے، اس کا ذہن تقلید پسند ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کی غلامی کی اہم وجہ فکر و فقرِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے دْوری ہے۔ تاریخِ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے فقرِمصطفوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلو تہی کی تو زوال اْن کا مقدر بن گیا، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں :
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فَقر کی نگہبانی