چینی کا مسئلہ کچھ دو کچھ لو!!!!!

حکومت چینی کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ بالخصوص پنجاب جہاں سب سے زیادہ شوگر ملز ہیں یہاں حکومت اور شوگر ملز مالکان کے مابین تنازع شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس معاملے میں حکومت کی غلط حکمت عملی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اہم فیصلوں کے لیے غلط وقت کا انتخاب تو موجودہ حکومت کا ٹریڈ مارک ہے اور تیسرے سال میں بھی حکومت ابھی تک سنجیدہ طرز عمل اور استحکام پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عین رمضان سے چند روز قبل چینی کے مسئلہ کو غیر حقیقی انداز میں بہتر حکمت عملی کے بغیر چھیڑا گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج پنجاب بھر میں چینی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے اور پنجاب بھر میں چینی کی شدید قلت ہے۔ قیمتوں کا تعین تو مکمل طور پر ایک الگ مسئلہ ہے سب سے پہلے تو دستیابی یقینی بنائی جاتی ہے۔ حکومت تو چینی کی فراہمی میں ہی ناکام نظر آتی ہے۔ پنجاب کی شوگر ملز سے ہی چینی نہیں نکل رہی۔ یہ یاد رکھا جائے کہ چینی کا بحران صرف پنجاب میں ہے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں حکومت اور شوگر ملز مالکان کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں جب کہ سندھ میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ سندھ سے ہی چینی بلوچستان میں بھی جاتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا کو بھی سندھ سے سپورٹ ملتی ہے۔ خیبر پختونخوا سے چینی بھاری مقدار میں افغانستان سمگل بھی ہوتی ہے اس کے باوجود وہاں چینی کی قلت کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ اب پیداوار اور استعمال کے اعتبار سے پنجاب سب سے بڑا اور اہم صوبہ ہے۔ بدقسمتی سے یہیں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت اب تک ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے اور نالائقی کا یہ عالم ہے کہ رمضان المبارک میں بھی عوام چینی کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ لاہور میں شہری سستی چینی کیلئے لمبی قطاروں میں لگنے پر مجبور ہو چکے ہیں لیکن کوئی حکومتی اہلکار نظر نہیں آ رہا۔ بات بڑھتے بڑھتے اب لاہور ہائیکورٹ تک جا پہنچی ہے۔ چینی کی قیمت سے متعلق درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس شاہد جمیل نے استفسار کیا کہ رمضان بازاروں میں لمبی قطاروں کیوں ہیں؟ عام دکاندار سے چینی پچاسی روپے کلو کیوں نہیں مل رہی ہے؟ 
سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ پچاسی روپے کلو مل رہی ہے، عدالت نے کہا کہ میڈیا پر خبریں آپ کے بیان کے خلاف ہیں۔ اگر بات مختلف ہوئی تو توہین عدالت کی کارروائی کیلئے تیار رہیں۔سرکاری وکیل نے کہا کہ دکانوں پر چینی پچاسی روپے، رمضان بازاروں میں پینسٹھ روپے فی کلو مل رہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے 15 روپے کے پیچھے لوگوں کو بھکاری بنا دیا ہے۔سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ لوگوں کو کرسیوں پر بٹھا کر چینی دی جارہی ہے۔ اس وضاحت پر عدالت نے حکم دیا کہ حلف نامہ جمع کروائیں کہ چینی کیلئے قطاریں نہیں لگیں گی۔
سرکاری وکیل کا یہ بیان پڑھنے کے بعد میں ان قیمتی کرسیوں کی تلاش میں شہر میں مارا مارا پھرتا رہا لیکن کرسیاں ملنا تو دور کی بات چینی بھی کہیں نہیں مل سکی۔ چند بڑے سٹوروں پر چینی ایک سو روپے سے ایک سو بیس روپے فی کلو مل رہی ہے یہ وہ سٹور ہیں جو کسی بھی حکومت کے کہنے میں نہیں آتے، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کوئی بھی حکومت ہو مارکیٹ کو یہی بڑے سٹور خراب کرتے ہیں لیکن کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ اول تو کوئی سرکاری اہلکار وہاں جاتا نہیں اور بھول کر کوئی ڈیوٹی کرنے چلا بھی جائے اس کے بعد اسے نوکری کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یہاں حکومت کی رٹ کبھی نظر نہیں آئی۔ بازار میں چینی مقررہ نرخوں پر دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان بازاروں میں سستی چینی کیلئے رش بڑھ گیا ہے۔ شہری سستی چینی حاصل کرنے کیلئے قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ رمضان بازاروں میں طویل قطاریں نظر آتی ہیں جہاں دو کلو چینی دی جا رہی ہے۔ یعنی عام دکانوں پر چینی دستیاب نہیں ہے۔ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ دکانوں پر بھی چینی دستیابی ممکن بنائی جائے۔
حکومت کے پاس اس مسئلے سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ کچھ لو اور کچھ دو کا ہے۔ حکومت جب تک شوگر ملز مالکان کے ساتھ نہیں بیٹھے گی ان کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گی اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، حکومتی اقدامات کی وجہ سے مل مالکان اور حکومت میں دوریاں پیدا ہوئی ہیں دونوں اپنی اپنی جگہ انتہا پر ہیں۔ اس مسئلے کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ حکومت کے لیے لازم ہے کہ ہر جگہ چینی یکساں قیمت میں دستیاب ہو۔ اس وقت چینی ملک میں تین قیمتوں میں فروخت ہو رہی۔ کہیں پینسٹھ روپے میں فروخت ہو رہی ہے تو کہیں اسی سے پچاسی روپے فروخت ہو رہی ہے اسی ملک میں چینی ایک سو روپے سے ایک سو بیس روپے فی کلو میں بھی فروخت ہو رہی ہے۔ اب یہ کیسا مذاق ہے کہ ایک ہی ملک میں تیار ہونے والی چینی جس پر ایک ہی طرح کی لاگت آتی ہے، ایک ہی جیسی شوگر ملوں میں تیار ہو کر ملک کے مختلف حصوں میں مختلف قیمتوں میں فروخت ہو رہی ہے۔ شوگر ملز مالکان نے چینی کی سپلائی روک دی ہے، حکومت اپنے موقف پر قائم ہے تو خوار کون ہو رہا ہے۔ نہ تو کسی وزیر کو مسئلہ ہے نہ کسی مل مالک کو تکلیف ہے خوار تو وہ ہو رہے ہیں جو اس ملک کے کروڑوں لوگ ہیں۔ جن کے نام پر جمہوریت کے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔ اتنی تفصیل اور اتنے تسلسل کے ساتھ چینی کے مسئلے پر لکھنے کے بعد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید مجھے تین سال سے چینی ہی نہیں ملی۔ کچھ دوستوں کو یہی لگتا ہے حقیقت یہ کہ میں تو نہیں لیکن بہت سے لوگ ایسے ہونگے جنہیں پہلے زندگی کی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے محنت کرنا پڑ رہی ہے اس کے بعد اسے حاصل کرنے کے لیے الگ سے محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ حکومت سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ کم از کم زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہی سمجھدار لوگوں کا انتخاب کرے تاکہ ملک کو غیر ضروری عدم استحکام سے نجات مل سکے۔

ای پیپر دی نیشن