علامہ اقبال کی زندگی ،بصیرت افروز واقعات

پروفیسر عبدالحق 

حکیم الامت ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال  ایک مصلح اور ریفارمرتھے۔ جن کا مقصد حیات مسلمانوں میں خودداری اور خوداعتمادی پیدا کرنا تھا اور اسی لئے قدرت نے انہیں شعر و فلسفہ‘ مذہب و سیاست کی تفہیم کی منفرد صلاحتیں عطا کی تھیں اور انہیں ہمارے قومی رہنما کے منصب پر فائز کیا ۔اکثر لوگ انہیں روایتی طورپر محض ایک بے عمل شاعر اور علائق دنیا سے بے  زار ایک مرد قلندر سے زیادہ نہیں جانتے جبکہ اقبال جیتے جاگتے ایک متحرک و فعال انسان تھے۔ جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کی فکری رہنمائی کی بلکہ پوری دنیا کے سامنے مسلمانوں کا نقطۂ نظر پیش کیا۔ ان کا یہ بھی احسان ہے کہ برصغیر کے پسماندہ مسلمانوں کی آزادی کے عظیم ترین سفر کیلئے  نشان منزل اور ایک راہبر کی شناخت بھی کی۔ ان سب کے باوصف وہ اپنی حقیقی زندگی میں ہنستے‘ بولتے‘ بے حد دل نشین گفتگو کرنے والے خوش طبع ، دوستوں کے درمیان بے تکلف اور بزلہ سنج اور علماء کی محفل میں انتہائی سنجیدہ اور قلم کی حرمت کے امین تھے۔ قومی رہنما کے طورپراقبال سے منسوب ایسے ان گنت واقعات ہیں جن سے ان کے مقاصد، صحیح خدوخال اور اصول و نظریات سے آگاہی ہوتی ہے۔
اقبال ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور دین اسلام کے بارے میں ان کا رویہ کسی فکری الجھائو سے پاک مثبت اور وا‘ضح تھا۔ وہ انسانی مسائل کا حل اسی کے نفاذ میں خیال کرتے تھے۔ قرآن پاک کی ابدیت‘ صداقت اور تعلیمات کے بارے میں ان کی سوچ بہت واضح تھی اور ان کے کلام کا بڑا حصہ کلام ربانی ہی کی تشریح و توضیح ہے۔ اپنے مذہب کی شان اور حقانیت کے ضمن میں وہ بہت جذباتی تھے اور مذہب کی شان کے خلاف کسی گستاخ کو معاف نہ کرتے تھے۔ اقبال کے ایک مداح ان کی خدمت میں حاضر بعض علمی مباحث کے ذریعے ’’اقبال شناسی‘‘ کیلئے مختلف طرح کے سوالات کر رہے تھے۔ اسی ضمن میں انہوں نے اقبال سے ان کی پسندیدہ ترین کتاب کا پوچھا کہ جس کے مرتبہ کی اور کتاب نہ ہو۔ اقبال نے اپنی انگلی کے خفیف سے اشارے سے انہیں انتظار کرنے کا کہا اور اٹھ کر اندر چلے گئے اور جب دوبارہ محفل میں آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جس نے انہوں نے سینے سے لگا رکھا تھا۔ اقبال نے وہ کتاب اپنے اس مداح کو تھما دی اور بڑے جذباتی انداز میں فرمایا ’’اس سے زیادہ مرتبے کی کتاب کوئی نہیں۔‘‘اقبال کے مداح نے احترام سے اس کتاب کو کھولا۔ یہ قرآن پاک تھا۔
اقبال لندن میں گول کانفرنس میں شرکت کے بعد مصر اور فلسطین سمیت متعدد ممالک کی سیر کرتے ہوئے وطن واپسی پر دوستوں کو اپنے تجربات اور مشاہدات سے آگاہ کر رہے تھے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ ایک دم مضطرب سے ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا:یہ عبادت گاہیں بالعموم زیرزمین بننے کی وجہ سے مکمل طورپر تاریکیوں کی زد میں ہیں جہاں دن کو بھی لیمپ وغیرہ روشن کرنے پڑتے ہیں۔اور  آزردگی کے باعث دل مغموم ہوکر رہ جاتا ہے۔اس کے بعد اقبال چند لمحوں کے توقف کے بعد بولے:ان عبادت گاہوںسے  واپسی پر میں فضا میں اللہ کا شکر ادا کرتا کہ دین اسلام کی عبادت گاہوں کی تعمیر میں کھلی فضا اور روشنی میں انسان کو اپنے خداکے حضور سربسجود ہونے کا موقع ملتا ہے۔
اس واقعہ کے راوی اقبال خود ہیں‘ وہ فرماتے ہیں:
’’زمانہ طالبعلمی میں وہ بعد از نماز فجر بڑی باقاعدگی سے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے اور اکثر ان کے والد صوفی نور محمد ان کے پاس آکر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک روز انہوں نے اقبال کو ایک راز کی بات بتانے کا کہا۔ اقبال نے متعدد بار اپنے والد سے وہ راز کی بات جاننا چاہی‘ لیکن وہ فردا کا وعدہ کرے ٹال جاتے۔ یہاں تک کہ اقبال سکول سے کالج تک پہنچ گئے اور جب لاہور سے وہ فارغ التحصیل ہوکر پہنچے تو ایک بار پھر اپنے والد سے اس راز کی بات کیلئے اصرار کیا جسے وہ مسلسل ٹال رہے تھے۔ اب ان کے والد نے بتایا:’’جب بھی تم قرآن پاک پڑھو تو یہ سمجھ کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہے اور قرآن تم نازل ہو رہا ہے۔‘‘ اس جملے نے اقبال کے دل پر بہت اثر کیا۔
اقبال کو بزرگان دین سے بہت عقیدت تھی اور وہ ہمیشہ اولیائے کرام، صوفیا اور مشائخ دین کی محفل میں شرکت کرتے اوران کے مزارات پر حاضری کو کسی نعمت  اور برکت سے کم نہ  جانتے تھے۔ ان کی زندگی بزرگان دین کی محبت سمیت ، اپنے اساتذہ کے مقام و مرتبہ اور اپنے ہم عصر زعماء کی علمی قابلیت اور خدمات کے اعتراف میںعجز و انکسار میں گزری۔علامہ اقبال بغرضِ تعلیم لندن جانے سے پہلے دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی علیہ الرحمتہ کے مزار پر حاضر ہوئے اور ان کے سر ہانے کھڑے ہو کر بہت رقت آمیزی سے اللہ کے حضور دعا مانگی ۔اقبال تعلیم کے حصول کیلئے لندن  پہنچے تو ان کے محبوب استاد پروفیسر آرنلڈ نے ان کے قیام و طعام کیلئے ایک یہودی گھرانے سے متعارف کروا دیا کیونکہ انہیں اس بات کی تسلی تھی کہ اس خاندان میں شرعی طریقے سے ذبح کئے گئے جانور کا گوشت ہی پکایا جاتا تھا۔  اقبال اس سہولت پر بہت خوش  تھے۔ بالخصوص اس یہودی گھرانے کے لوگوں کے اخلاق اور تہذیب نے انہیں بہت متاثر کیا۔ وہ لوگ بہت روشن خیال تھے۔ نہ صرف اقبال کے ساتھ عبادت میں شریک ہو جاتے تھے بلکہ اسلام کی اس عظمت کا اعتراف بھی کرتے تھے کہ اس کی تعلیمات کے مطابق حضرت موسیٰ  ؑکو خدا کا سچا نبی تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوصف وہ دولت کی محبت میں اس حد تک گرفتار تھے کہ ان کی تمام خوبیاں ا س کے آگے دم توڑ دیتی تھیں۔ ہلکی پھلکی لغزشیں تو ایک جانب‘ وہ اپنی معرفت اقبال کی خریدی ہوئی اشیاء پر دکانداروں سے کمشن  وصول کرنابھی نہ چھوڑتے تھے۔ اس  پر اقبالؒ ان لوگوں سے کنارہ کش ہو گئے۔
لندن میں قیام کے دوران یہ واقعہ بھی اقبال کی مذہبی غیرت اور اپنے ہم وطنوں کیلئے محبت اور ان کے دفاع کے جذبہ کی دلالت کرتا ہے۔اقبال تفریح کی غرض سے سکاٹ لینڈ پہنچے تو اتفاق سے وہاں عیسائیوں کے ایک مبلغ  لوگوں سے خطاب کرنے والے تھے۔ اقبال بھی وہاں چلے گئے۔ اس پادری نے ہندوستان کے باسیوں کی غربت‘ جہالت‘ پسماندگی اور بے بسی پر ایسی تحقیر بیان کی کہ اقبال اپنے وطنوں کیلئے غیرمتمدن اور جاہل جیسے القابات برداشت نہ کر سکتے تھے۔ ایک دم حاضرین کے سامنے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پادری صاحب نے جس ہندوستان کے لوگوں کی  جہالت‘ پسماندگی کا نقشہ کھنیچا ہے میں اسی قبیلے کا ایک فرد ہوں جس نے اپنے ہی ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور مزید تعلیم کیلئے یہاں آیا ہے۔ ہندوستان کے لوگ اگر کسی کے غاصبانہ قبضے کی وجہ سے محکوم ہیں تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ وہ اعلیٰ انسانی اوصاف ہی سے محروم ہیں۔ ان کی اپنی ایک جاندار تہذیب اور تاریخ ہے۔ جو کسی بھی صورت آپ سے کم نہیں۔ اقبال کے اس مدلل خطاب کا نتیجہ تھا کہ لوگ اٹھ کر چل دیئے اور محفل  برخاست ہو گئی۔
اقبال نے اپنی عمر کے اختتام کے وقت صغف اور بیماری کے باعث لوگوں سے ملنا جلنا کم کر کر دیا تھا‘ تاہم ایک جرمن باشندے کو جو اقبال کا بے حد مداح تھا‘ ملاقات کی اجازت دیدی۔ اس نے رسمی مزاج پرسی کے بعد اقبال سے بیماری کی تفصیلات جاننا چاہی اقبال نے مسکراتے ہوئے بڑے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا:
’’میں مسلمان ہوں اور موت سے نہیں ڈرتا۔ موت جب آئے گی تو مجھے ہنستے ہوئے پائے گی۔‘‘ یاد رہے کہ اقبال نے اپنی رحلت سے پہلے ہی متعدد مواقع پر اس حقیقت کا اظہار اس شعر میں کر دیا تھا
نشان مرد مومن  باتو گویم
چو مرگ آید تبسم برلب اوست
(میں تمہیں ایک مرد مومن کی نشانی بتاتا ہوں کہ جب اسے موت آتی ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ طاری ہوتی ہے)
اقبال نے اپنے آخری ایام میں اپنی بہن کو جو خط لکھا‘ اس کا یہ حصہ جو دعائیہ ہے یاد رکھنے کے قابل ہے۔ اقبال نے کہا:’’میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نئی زندگی عطا کرے اور جو قوم اس کے دین کی امین ا و رمحافظ ہے‘ اسے ذلیل و رسوا نہ کرے۔ مسلمانوں کا بہترین ہتھیار دعا ہے لہٰذا اسی سے مدد لینی چاہئے۔ اور ہر وقت دعا کرنی چاہئے۔ ہمیں نبی کریمؐ پر درود بھیجنا چاہئے کیا عجب کہ اللہ کریم اس امت کی دعا سن لے اور اس پر رحم فرما دے۔‘‘

ای پیپر دی نیشن