فیض احمد فیض نے شاعر مشرق ، حکیم الامت ، حضرت علامہ اقبال ؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
آیاہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزلخواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہوگئیں
ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا
ان ویران مے کدوں کا نصیب کیوں نہ سنورتا کہ انھیں اقبالؒ نے اپنے کلام ِ معجز نما سے رونق بخشی ۔اقبالؒ نے مسلمانانِ ہند کے پژمُردہ دلوں کو حیات ِ نو عطا کی ۔انھیں مایوسیوں اور تاریکیوں کے قعرِ مذلت سے نکال کر ایک نیا ولولہ عطا کیا ۔ لاہور سے بخاراوثمرقند تک اپنے جاندار پیغام کے ذریعے فکر وعمل کی نئی راہیں آباد کیں ۔
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاک بخاراو ثمر قند
یہی وجہ ہے کہ علم و ادب کے بروجِ مشیدہ شاعرِ مشرق کی دہلیز پہ ناصیہ فرسا نظر آتے ہیں ۔
انیسویں صدی کے آغاز تک برصغیر کا شعری ادب جمود کا شکار ہوچکا تھا ۔اردو کی روایتی غزل محبوب مجازی کے عذار و ذقن کا پر تو تھی۔ شعراء اپنی کیفیات اور واردات ِقلبی کے اظہار میں مہارت تأمہ رکھتے تھے لیکن قوم کی فکری رہنمائی سے قاصر تھے ۔یہ اقبال ہی تھے کہ جنھوں نے مایوس کن حالات میں اپنی قوم کوبے عملی اور کم کوشی کی روش ترک کر کے جہد ِمسلسل کا درس دیا۔
بڑھے جایہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
یوں تو کلام اقبال جہان ِ معنی کا ایک بحرِعمیق ہے جس میں فکر و عمل کے گنج ہائے گراں مایہ موجود ہیں لیکن کلام اقبال کاسب سے زرخیز پہلو ان کا پیغام عمل ہے۔دیگر تمام تصورات کا مقصود یہی ہے کہ انسان کسالت و سستی ترک کر کے مائل بہ عمل ہو اور اس مختصر زندگی میںوہ کار ہائے نمایاں سرانجام دے کہ ساکنانِ عرشِ اعظم بھی اس پر فخر کریں ۔ کلام اقبال کی یہ بنیادی خوبی ہے کہ اس سے انسان میں انقلابی روح پیدا ہوتی ہے۔اقبال ؒکے نزدیک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے والے کارگاہِ حیات میں بدترین شکست سے دوچار ہوتے ہیں ۔ اس عالم آب وخاک میں ہر چیز حرکت میں ہے ۔ہر گزرتے پل کے ساتھ تغیر و تبدل ظہور پذیر ہوتاجاتا ہے ۔ایسے میں اگر کوئی حرکت چھوڑ دے تو اس کی روح مردہ ہوجاتی ہے اور ایک لمحے کی خطا انسان کو صدیوں پیچھے دھکیل دیتی ہے۔چنانچہ ’’خضراراہ‘‘ میں اقبال کا تصورِ زندگی نہایت شرح و بسط کے ساتھ موجود ہے۔
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں ، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّآدم ہے ، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شِیرو تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
یہاں ایک انتہائی اہم نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’’اسرار خودی‘‘ کی اشاعت سے بہت سے بزرگوں کو یہ گمان گزرا کہ اقبال ؒ تصوف کی کُلی طور پر نفی کرتے ہیں حالانکہ یہ تأثر درست نہیں تھا ۔اقبالؒ خود اولیاء کاملین سے گہری عقیدت و ارادت رکھتے تھے اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی حیات و خدمات سے بے پناہ متأثر تھے۔ کلام ا قبال کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ مولانا جلال الدین رومی ؒ کو اپنا مر شد مانتے ہیں اور خود کو ان کا ایک سعادت مند مرید قرار دیتے ہیں ۔ در اصل اقبال ؒ نے فلسفۂ وحدت الوجود کو قوم کے لیے ’سکر‘ قرار دیا اور ایسے تصوف کا کڑا محاسبہ کیا جو قوم کو ترک ِدنیا کی طرف مائل کر کے زندگانی کے درپیش چیلنجز سے غافل کر دے ۔ چنانچہ اقبال ؒ مزاج خانقاہی ترک کر کے رسم شبیریؒ اداکرنے کاپیغام دیتے ہیں ۔ وہ ساحل پہ پیٹھے ہوئے سینکڑوں’ مستوں ‘ پر لہروں سے الجھنے والے ایک ’ہوشیار‘ کو ترجیح دیتے ہیں ۔
میارا بزم بر ساحل کہ آنجا
نوائے زندگانی نرم خیز است
بہ دریا غلط و باموجش درآویز است
حیاتِ جاوداں اندر ستیز است
(ترجمہ: ساحل پر اپنی بزم آراستہ نہ کر، اس لیے کہ وہاں زندگی کے نغمات بہت مدھم ہیں ۔زندگی کاحقیقی لطف درکار ہے تو دریا میں کود کر اس کی طوفانی موجوں سے گتھم گتھا ہو جا کہ حیاتِ جاوداں کا راز اسی الجھنے میں پنہاں ہے)
جس زندگی میں جہد مسلسل نہ ہو، حرکت نہ ہو ، قوت نہ ہو، اضطراب نہ ہو، اقبال ؒکی نظر میں ایسی زندگی موت ہے ۔
جس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی
رُوح اُمم کی حیات کشمکش ِ انقلاب
آج وطن عزیز کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی حالات دگر گوں ہیں ۔ آج کا نوجوان سہل پسند ہے، کم کوش اور بے ذوق ہے ۔ مغربی تہذیب کی چکا چوند نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے۔ایسے مایوس کن حالات میں کلام اقبال کے اندر ہر طبقۂ فکر اور بالخصوص نوجوان نسل کیلئے بھر پور رہنمائی موجود ہے ۔اقبال ؒ نوجوانوں کو اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے لاکر مائل بہ عمل ہونے کا پیغام دیتے ہیں ۔ انکے نزدیک حرکت زندگی ہے اور سکون موت ۔ وہ ہر میدان میں مسلسل محنت ، کوشش اور نہایت جان فشانی سے ڈٹ کر مشکلات کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ یہی کلام اقبال کا حاصل ہے ۔
نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
٭…٭…٭