اخلاقیات کا تعلق انسانی اعمال سے ہے اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ نیتوں سے مراد انسان کے ارادے کی پختگی ہے۔ نیتوں اور ارادوں کو زیادہ طاقتور بنانے کیلئے انسان کو اخلاقی قوانین اپنانے کا پابند ہونا چاہئے۔ انسان فطری طورپر خیر کا طالب اور شر سے گریزاں ہے۔ فلسفیانہ افکار اور مذہبی قوانین میں خیروشر کا نظریہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ عظیم یونانی فلسفی سقراط کا خیال تھا کہ اگر ہمیں نیکی یا خیر کا علم ہو تو ہم نیکی ہی کریں گے اور اگر بدی یا شر کا صحیح علم ہوگا تو اس سے بچیں گے۔ گویا نیکی علم سے اور بدی جہل سے سرزد ہوتی ہے۔ افلاطون نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ریاست‘‘میں چار بڑے فضائل بیان کئے ہیں۔ یہ امہات فضائل حکمت‘ شجاعت‘ ضبط نفس اور عدالت ہیں۔ ان فضائل ہی کی بنا پر انسان خیر کو اعلیٰ درجے تک لے جاتا ہے۔ ہر لذت انگیز عمال کو خیر نہیں کہا جا سکتا۔ صرف وہ اعمال خیر کے زمرے میں آئیں گے جن کے نتائج کا زیادہ تر حصہ مثبت ہو اور جو بھلائی کی طرف مددگار ہوتے ہیں۔ اس طرح پتہ چلتا ہے کہ انسان کا لذت و الم اور خیر و شر کا عیار کس قدر مختلف ہے۔ کسی انسان کے نظریہ حیات کو بھی جانچنے کیلئے خیروشر کے ترازو سے ماپا جا سکتا ہے۔ زندگی میں انسان خوشی‘ غمی‘ دکھ اور سکھ کے تجربات سے گزرتا ہے۔ یہی اس کی زندگی میں خیروشر کا باعث بنتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنے تصور خودی میں اخلاقیات کی حقیقت بیان کی ہے۔ اس کے تصور خودی میں انسان کو تخلیق کار اور خدا کا شریک کار قرار دیا ہے۔ فرد کی انا ہمیشہ انائے ربانی یا انائے کبیر سے ہمکنار ہونے کیلئے برسرپیکار نظر آتی ہے۔ حرکت و عمل کے اس طریق کار میں انسان استحکام ذات اور احترام خودی کو برقرار رکھتا ہے۔ علامہ اقبال نے خودی کو خصوصی اہمیت اس لئے دی ہے کہ اس میں نظری سے آگے بڑھ کر عملی صورتحال پیدا ہونا ہوتی ہے۔ عمل کرنا ہی انسانی اخلاق کی بہترین مثال ہے۔ علامہ اقبال کے فکر میں خودی دراصل انسانی تشخص کی بڑائی ہے جو اس کی اندرونی جذبی کیفیات سے اجاگر ہوتی ہے۔ یہی بڑائی اسے عظیم سے عظیم ترین اور پھر عظیم تر سے عظیم تر بنا دیتی ہے۔ انسان کی شخصیت میں پنہاں لاتعداد خوبیاں اور صلاحیتیں اسے ہر لمحہ متحرک رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خودی انہی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مجموعہ سے یافت کے مراحل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور یہی علامہ اقبال کے تصور اخلاق کا اہم پہلو ہے۔
اخلاق کی ایک قانونی حیثیت ہے۔ اس کی بنیادیں انسانی نفسیات آزادی ارادہ‘ آرزو‘ اخلاق بطور قانون‘ تصور استعمال‘ نفس اور اخلاقی اعمال کے مابعد الطبعیاتی لوازم پر مشتمل ہے۔ علامہ اقبال کے نظریہ اخلاق کا مرکزی نکتہ تصور خودی ہے۔ انہوں نے چار بنیادی اخلاقی اقدار عشق‘ فقر‘ جرأت اور حریت بنائی ہیں جو انسان کامل بننے کیلئے اہم کردار کی حامل ہیں۔ علامہ اقبال نے تربیت خودی پر بے حد زور دیا ہے۔ جب خودی مستحکم ہوتی ہے تو انسان عام حیثیت سے نکل کر انسان کامل بننے کی جانب سفر طے کرتا ہے۔ استحکام خودی‘ اثبات خودی اور نفیٔ خودی کو علامہ اقبال نے قرآنی‘ اسلامی اور مغربی اخلاقی روایات کے حوالے سے جدید انداز میں پیش کیا ہے۔ اقبال تصور اخلاق کی تمام تر اٹھان اور تاریخی مآخذ دراصل انسان‘ خدا اور کائنات کے باہمی تعلق بقائے دوام اور آزادیٔ ارادہ کے فکری تناظر میں سامنے آتے ہیں۔ اقبال کو انہی فکری اخلاقی بنیادوں کی بنا پر ممدوح عالم کہا جاتا ہے۔
علامہ اقبال کے فلسفۂ اخلاق کا حقیقی اور بنیادی منبع قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے۔
ترجمہ:۔ ’’جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی سے نوازا گیا) (القرآن 62-2)
علامہ اقبال تلاوت قرآن حکیم کی تفہیم کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’صوفیائے اسلام میں سے ایک بزرگ کا قول ہے کہ جب تک مومن کے دل پر بھی کتاب (قرآن مجید) کا نزول ویسے نہ ہو جیسے آنحضرتؐ پر ہوا تھا اس کا سمجھنا محال ہے۔‘‘ (تشکیل جدید البینات اسلامیہ) ؎
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف