یوں تو علامہ اقبالؒ سب کے آئیڈیل ہیں ، شاعر ، ادیب ، خطیب سب ہی ان کو استاد مانتے ہیں ، ان کے کلام سے رہنمائی لیتے ہیں ، فلسفی بھی تخیلات اقبال سے کئی گرہیں کھولتے ہیں اور کئی پیچیدہ معاملات کی تہہ تک جا پہنچتے ہیں ، مذہب اور سماج میں بھی علامہ اقبالؒ ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں ، محراب و منبر پر تو کلام اقبال کی گونج ہوتی ہے ، آیات و احادیث کی تشریح کلام اقبال سے کی جاتی ہے ، سیاستدان تو ویسے ہی علامہ اقبال پر کسی اور کو حق نہیں دیتے ، نوجوانوں کے لیے بھی اقبال کی شخصیت میں بڑی رہنمائی ہے ، گویا کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جس میں کلام اقبالؒ کی تاثیر و حلاوت نہ ہو۔ علامہ اقبالؒ کو رب کریم نے چار دانگ عالم کی شہرت عطا کی جس طرح اقبال نے ’’اسلام دیس ہے تیرا تو مصطفوی ہے‘‘ کہہ کر ایک مسلمان کو جغرافیائی حد بندیوں سے آزاد کر دیا اسی طرح مالک ارض و سماء نے اقبال کو برصغیر کی حد بندیوں سے نکال کر پورے عجم اور عرب میں متعارف کرا دیا ، آج عربوں میں بھی علامہ اقبالؒ اسی طرح مقبول ہیں جس طرح مسلمانان برصغیر کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں ۔ کلام اقبال کے عربی میں تراجم ہو چکے ہیں ، عرب شعراء ادیب ، خطیب اور علماء اپنے بچوں کے نام اقبال رکھتے ہیں۔ گویا اسلامی دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں اقبال متعارف نہ ہوں اور عملی زندگی میں کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں علامہ اقبال ایک مثالی شخصیت کے طور پر نہ ہوں۔
علامہ اقبال جس طرح کئی دوسرے شعبوں میں آئیڈیل تھے اسی طرح ایک مثالی وکیل بھی تھے۔ پیشہ ورانہ مہارت ، دیانتداری ، مؤکل سے ہمدردی سمیت اچھے اور مثالی وکیل کی تمام صفات علامہ اقبال میں بدرجہ اتم موجود تھیں ، مثال کے طور پر پٹنہ کی عدالت میں ایک (دیوانی) دعویٰ زیر سماعت تھا اس میں حکومت کی طرف سے ایک معروف ہندو رہنما اور وکیل سی ۔ آر ۔ داس (چٹار انجن داس) جبکہ مدعی کے وکیل پنڈت موتی لعل نہرو اور عبداللہ سہروردی تھے۔ دعوے میں کئی مسودات فارسی اور عربی میں تھے ، بعض کی تشریح متنازعہ بن گئی تھی تو سی ۔ آر ۔ داس نے عربی ، فارسی مسودات کی تشریح کے لیے حکومت سے اجازت لے کر علامہ اقبال کو لاہور سے بلوایا، اس دور میں ایک ہزار روپے روزانہ فیس مقرر ہوئی ، عدالت نے کہا کہ وہ مقدمہ کی تیاری کے سلسلے میں ایک ، دو ماہ جتنا عرصہ چاہیں ، قیام کر سکتے ہیں اور اگر کتب ، ریفرنس تلاش کرنے کے لیے آپ کو لاہور، کلکتہ یا کسی دوسرے شہر جانا پڑے تو آمدورفت اور قیام و طعام کے اخراجات حکومت ادا کرے گی۔ سی ۔ آر ۔ داس نے پٹنہ ریلوے سٹیشن پر علامہ اقبال کا استقبال کیا ، اچھے ہوٹل میں قیام و طعام کا بندوبست کیا ، متعلقہ کاغذات دعویٰ علامہ اقبال کے حوالے کیے اور چل دئیے۔ دو دن بعد آئے تو علامہ اقبال نے بتایا کہ متنازعہ دستاویزات کی تشریخ کر لی ہے آج عدالت میں اپنا نقطہ نظر پیش کر دیں گے جس پر سی۔ آر۔ داس نے کہا کہ یہ سرکاری دعویٰ ہے۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ آپ کاغذات تیار کریں۔ اس کیلئے آپ دو ماہ بھی قیام کر سکتے ہیں۔ آپ کو روزانہ ایک ہزار روپے ملتا رہے گا، تاہم علامہ اقبال نے انکار کر دیا۔ عدالت میں پیشی کے بعد علامہ اقبال باہر آئے اور لاہور کے لیے روانگی کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس دوران بنک بند ہو چکے تھے اور فیس کی ادائیگی ممکن نہیں تھی جس پر علامہ اقبال سے کہا گیا کہ آپ ایک دن اور ٹھہر جائیں تو آپ کو ایک ہزار روپے مزید فیس مل جائے گی، لیکن علامہ اقبال نے انکار کر دیا اور یوں حکومتی ذمہ داران نے ادھر ادھر سے رقم اکٹھی کرکے علامہ اقبال کو فیس ادا کی۔ علامہ اقبال ہمیشہ انتہائی چھان بین اور جانچ پڑتال کے بعدہی مقدمات لیتے اور دعویٰ جات کی پیروی کرتے تھے۔ جس مقدمہ یا دعویٰ میں قانونی طورپر ریلیف نہ ملنے کی گنجائش نہ ہوتی، علامہ اقبال اس مقدمہ یا دعویٰ کی پیروی سے انکار کر دیتے۔ ’’کیس وکیل نہیں، مؤکل ہارتا ہے‘‘ جیسے نظریے کی علامہ اقبال کی وکالت میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ ایک شخص نے علامہ اقبال کو وکیل کرنا چاہا، علامہ اقبال نے فائل کے مطالعہ کے بعد پیروی سے انکار کر دیا کہ ’’اس مقدمے میں جان نہیں، لہٰذا آپ کی جیت کا کوئی امکان نہیں۔‘‘
اس شخص نے کہا کہ آپ منہ مانگی فیس لیں، اگر میں مقدمہ ہار بھی گیا تو مجھے افسوس نہیں ہوگا، لیکن علامہ اقبال نے کہا کہ ’’میں حرام کمائی کا قائل نہیں ہوں۔‘‘ اور قانونی لحاظ سے کمزور مقدمہ کی پیروی سے انکار کر دیا۔ اس طرح علامہ اقبال میں ایک اور خوبی بھی تھی۔ وہ آج کل کے بڑے وکلاء اور بڑی لاء فرموں کی طرح ’’ھل من مزید‘‘ کے لیے دروازہ کھلا نہیں رکھتے تھے بلکہ اگر ان کی ماہانہ آمدن اور ضرورت کے مطابق مقدمات مل جاتے تو مزید مقدمات لینے سے انکار دیتے تھے۔ علی بخش کا کہنا ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب جس زمانے میں وکالت کرتے تھے، پیروی کیلئے مقدمات اور دعویٰ جات ہر مہینے کی 10 تاریخ تک لیتے تھے، اس وقت ڈاکٹر صاحب کے ماہانہ اخراجات 700 روپے تھے، جب اتنی رقم کے معاوضے کیلئے مقدمات اور دعویٰ جات آجاتے تو علامہ اقبال مزید انکار دیتے۔ اگر کوئی مؤکل اصرار کرتا تو آپ مشورہ دیتے کہ آئندہ ماہ 10 تاریخ سے پہلے پہلے آنا۔…‘‘
مذکورہ بالا واقعات سے دور حاضر وکلاء کو رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور پیشہ وکالت کو مثالی بناتے ہوئے اس نقطۂ نظر کو بھی غلط ثابت کرنا ہو گا جو آج اکبر الہ آبادی کے ایک شعر کی صورت میں زبان زد خاص و عام ہے کہ
پیدا ہوا وکیل تو…نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے