ملتا ن(نوید انجم شاہ سے) واضح عدالتی احکامات کے باوجود حکومت اور انتظامیہ کی ناک کے عین نیچے آم کے درختوں کی بے دردی سے کٹائی کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے نام پر ملتان اور گردونواح میں قتل عام دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ملتان اور نواحی علاقوں میں بڑے زمیندار گھرانوں نے اپنی ہزاروں ایکڑ اراضی کو کمرشل کرنے کی غرض سے آموں کے درختوں کی از خود تلفی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ آموں کی کٹائی کا سلسلہ روکنے کے لئے عدالت عالیہ میں بھی درخواست دائر کی گئی گی ہے جہاں سے حکم امتناعی بھی مل چکا ہے تاہم انتظامیہ تاحال آموں کے درختوں کی کٹائی کے سلسلے کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ تفصیل کے مطابق ملتان جیسے اولیاء کی سرزمین اور دھرتی قیمتی ہونے کے علاوہ آموں کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے ملتان میں دریائے چناب اور دریائے راوی جس جگہ آ کر ملتے ہیں وہاں سے آموں کے درختوں کا ایسا نایاب سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی لاکھوں ایکڑ رقبہ پر آم کے درخت لگانے کا یہ سلسلہ صدیوں پہلے شروع ہوا تھا۔اس سے قبل آموں کے درخت لگانے کے لیے جب ریسرچ شروع کی گئی تو ملتان کے دریائے چناب کے علاقہ سے ملحقہ زمین کو آم کی کاشت کے لیے سب سے زیادہ موضوزوں قرار دیا گیا۔ پھر اس علاقہ میں آموں کی کاشت کے لیے انڈین پنجاب ہریانا دہلی کے علاقوں سے آموں کو منگوا کر ان کی کاشت ان علاقوں میں شروع کی گئی۔ شروع میں صحرائی گردانے جانے والے اس علاقہ میں آم کے درختوں کی کاشت مشکل ترین مرحلہ تھی تاہم آج اس علاقہ کے آم کو دنیا بھر میں شہد سے میٹھا اور بہترین پھل گردانہ جاتا ہے۔ کئی نسلوں کی محنت سے تیار ہونے والے اس آم کو بالآخر کمرشلزم کی نظر لگ گئی گی ان ہاؤسنگ کالونیوں نے جیسے ہی ملتان کا رخ کیا تو پھر آموں کے درختوں کی کٹائی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی تیزی سے جاری ہے۔ابتداء میں ملتان شہر جس کی حدود مظفرآباد سے شروع ہوکر چوک کمہارانوالہ تک ختم ہو جاتی تھی آج شیرشاہ سے شروع ہوکر خانیوال کے ضلع تک پہنچ گئی ہے بند بوسن پرانا شجاع آباد روڈ وہاڑی روڈ بہاولپور روڈ پر بھی پچیس کلومیٹر تک کے علاقوں کو ہاؤسنگ کالونیوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آموں کے درختوں والے رقبہ جو چند سال قبل 10 لاکھ سے 15 لاکھ ایکٹر تک فروخت ہو رہا تھا۔ ان ہاؤسنگ کالونیوں کے آنے کے بعد یہ رقبہ اب ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے ایکڑ میں فروخت ہو رہا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ اب بند بوسن سے آگے نواب پور کے علاقہ سے آگے بھی اب تیزی سے درختوں کی کٹائی کا عمل شروع ہے۔ پہلے مرحلہ میں زمیندا ر آم کے درخت کے سوکھ جانے کا بہانہ بنا تے ہیں۔ پھر کٹائی کے بعد وہاں گندم ، گنا یا کپاس کی کاشت بھی کی جاتی ہے تاہم اصل مقصد بڑی ہاؤسنگ کالونیوں کو سفید پلاٹ دینا ہے جس کی قیمت بہرحال عام مارکیٹ میں زیادہ لگ جاتی ہے۔ شہریوں سماجی اور عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کہ وہ آموں کے اس قتل عام کو بند کرائیں۔صدر ہائی کورٹ بار سید ریاض الحسن گیلانی نے کہا ہے کہ بارز صرف وکلا کے مفاد کا ہی نہیں بلکہ عوام کے مفاد کا بھی تحفظ کرتی ہیں۔ ہائی کورٹ بار نے آموں کی درختوں کی کٹائی کے حوالے سے عدالت عالیہ میں رٹ دائر کی جس پر حکم امتناعی بھی جاری ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واضح عدالتی احکامات کے باوجود اموں کے درختوں کی کٹائی کا نہ روکنا فسوسناک عمل ہے۔ ہائی کورٹ بار نے اس ٹمبر اور ہاؤسنگ کالونی مافیا کے خلاف اسی لئے رٹ درخواست دائر کی تھی اب انتظامیہ ان عدالتی احکامات کی تعمیل کروائے۔