دانائے راز

وہ لوگ جنہوں نے مزار اقبال کی لوکیشن کا انتخاب کیا تھا اور جس کمیٹی نے اقبالؒ کی یہ غزل سقفِ مزار(مزار کی چھت) پر لکھوانے کا فیصلہ کیا تھا وہ کون تھے، اس غزل کے لکھنے کا مدعا کیا تھا اس میں اقبال کا کیا پیغام سمودیاگیاہے اور پاکستان کے آج کے دور پُرآشوب میں ان کے یہ چھ اشعار ہمیں کیا سبق دیتے ہیں اس کیلئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ : مزار اقبال کی چھت پر رقم کی جانے والے چھ اشعار پرمشتمل یہ فارسی غزل اقبال کے مجموعہ کلام زبور عجم میں شامل ہے۔اس غزل کا اردوترجمہ پیش خدمت ہے۔
ترجمہ(1):میرے سانس کو بادبہاراں کی صفت عطاہوئی ہے اورمیرے آنسوئوں نے گیاہ (گھاس) کو چنبیلی بنادیاہے۔ ترجمہ(2):لالہ صحرائی کا سرخ رنگ میرے خون کی وجہ سے ہے کیونکہ میرا پیالہ مئے سرخ سے بھردیاگیاہے۔ ترجمہ(3):میں اس قدر بلند پرواز ہوں کہ فرشتے کئی بارمیری گھات میں بیٹھے ہیں۔ ترجمہ(4):آدم خاکی کی شان نت نئے کاموں سے ہے اس کے برعکس مہ وستارہ وہی کرتے ہیں جو پہلے سے کرتے آرہے ہیں۔ ترجمہ(5):میں نے اپنا چراغ اس لئے جلایاہے کیونکہ اس زمانے میں یدِ بیضا آستیں میں چھپادیاگیاہے۔ ترجمہ(6)اللہ تعالیٰ کی جناب میں سربسجود ہو اور بادشاہوں سے مددمت مانگ، ہمارے بزرگ مشکل وقت میں یہی کیا کرتے تھے۔
یہ اقتباس لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان کا مضمون جو مزاراقبال پر ماہنامہ ہلال میں شائع ہوا تھا کا آخری پیراگراف ہے۔ اس مضمون میں کرنل صاحب نے شاعر مشرق کے مزار پر اپنے بچپن اورپھر جوانی کی حاضریوں کا تذکرہ انتہائی دلکش اورموثرانداز میں کیا ہے۔ مضمون کے آخر میں کرنل غلام جیلانی نے علامہ کے مزار کی چھت پر مرقوم فارسی غزل کاذکرکیاہے اور اس کا صرف ایک شعر درج کرنے کے بعد مذکورہ سوالات اٹھائے ہیں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مزار اقبال کے مقام کا انتخاب کرنے والے کون لوگ تھے؟ تو عرض ہے کہ اقبالؒ کے انتقال سے نو دس گھنٹے بیشتر جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ حالت اطمینان بخش نہیں ہے تو چودھری محمدحسین اور ڈاکٹرمحمدحسین اورڈاکٹر مظفرالدین نے یہ طے کیا کہ علامہ مرحوم کو شاہی مسجد کے کسی حجرے میں دفن کیاجائے۔ چودھری محمدحسین کا شمار علامہ اقبال کے عزیز ترین دوستوںمیں ہوتا تھا۔ انہوں نے زندگی کا بیشتر وقت اقبال کی قربت میں گزارا۔ اقبال کی تصانیف بھی چوہدری محمدحسین کے اہتمام سے شائع ہوئیں۔ وہ اقبال کے آخری وقت میں بھی انکے پاس موجود تھے۔ اقبال نے انہی کو اپنے بچوں کا سرپرست مقررکیاتھا اور اقبال کی وفات کے بعد وہ اپنی وفات تک انکے بچوں کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ بہرحال وفات سے ایک گھنٹے بعد چند نیاز مندوں نے چوہدری محمدحسین صاحب کی سرکردگی میںا س تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی اور وزیراعظم پنجاب سرسکندرحیات کی خدمت میں پہنچے مگر وہ لاہور سے باہر تھے اس لئے ملاقات نہ ہوسکی۔ اب مسلم اکابرین اور محبان اقبال جن میں سید محسن شاہ، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین خان، سعادت علی خان، میاں نظام الدین خان، میاں امیرالدین، مولاناغلام مرشد، چوہدری محمدحسین،عبدالمجید سالک اورمولانا غلام رسول مہرشامل تھے۔تجویزمدفن کیلئے شاہی مسجد پہنچے۔ مسجد کے بڑے دروازے کی سیڑھیوں پر پہنچتے ہی بائیں جانب کا قطعہ زمین بہت موزوں معلوم ہوا اور حجرے کا خیال ترک کرکے سب کی تجویز یہ ٹھہری کہ اس جگہ دفن کی اجازت لی جائے اس لئے کہ یہ جگہ مسجد سے ملحق تھی اور اس میں یہ سہولت بھی تھی کہ عام مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم بھی زیارت مزار سے بلاتکلف مستفید ہوسکتے تھے۔یہ طے ہوجانے کے بعد پانچ آدمیوں کا ایک وفد سرہٹری کریک گورنرپنجاب کی خدمت میں پہنچا۔ مجوزہ جگہ مسجد کی طرح محکمہ آثارقدیمہ کی نگرانی میں تھی اور اس کیلئے دہلی سے اجازت منگوانی ضروری تھی لیکن سرہنری کریک نے جلد سے جلد انتظام کردیا اور 21اپریل کو ہی12بجے تک اجازت مل گئی۔ علامہ اقبالؒ کی تدفین کے چند ہی روز بعد محبان اقبال کا ایک اجلاس جاوید منزل رہائش گاہ اقبال مرحوم میں منعقد ہوا جس میں مزار اقبال کی تعمیر کیلئے ایک کمیٹی تشکیل ہوئی۔ چوہدری محمدحسین اس کمیٹی کے صدر جبکہ شفاء الملک حکیم قرشی، میاں امیرالدین، راجہ حسن اختر، حمیدنظامی اور شیخ محبوب الٰہی ارکان منتخب ہوئے۔ خواجہ عبدالرحیم اس کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کئے گئے۔ چوہدری محمدحسین کے بعد راجہ حسن اختر اس کمیٹی کے صدر چنے گئے۔
آٹھ سال تک تعمیرمزار کاکام شروع نہ ہوسکا، اس مدت میں کچی قبر پر پختہ تعویز ہی اقبال کا مدفن تھا۔ مزار کی تعمیر کا کام1946ء میں شروع ہوا اور چار سال بعد 1950ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اس پر خرچ آنے والی رقم کا خاصا بارگاہ اقبال نے فراہم کی ،عطیات کیلئے عام اپیل نہ کی گئی۔ مزار کا نقشہ حیدرآباد دکن کے ممتاز ماہر تعمیرنواب زین یارجنگ نے بنایا۔ تعمیر کا ٹھیکہ چودھری فتح محمدنے لیا۔ چیف انجینئر محمدسلیمان اور اوورسیئرمیاں بشیراحمد نے بلامعاوضہ راہنمائی اور نگرانی کی خدمات انجام دیں۔ تعمیر میں استعمال ہونے والا سنگ مرمر ریاست دھولپور (بھارت )سے حاصل کیاگیا اور اسے دہلی آگرہ اورمکرانہ کے کاریگروں نے تراشا ۔ مزار کا کتبہ اور تعویز حکومت افغانستان نے کابل سے تیارکراکے بھیجے۔ یہ کتبہ اور تعویزدنیا کے سب سے زیادہ قیمتی پتھرLAPIS LAZULIسے تیار کئے گئے۔
اب رہا یہ سوال کہ مزار کی چھت کیلئے غزل کے اشعار کا انتخاب کرنیوالی کمیٹی میں کون لوگ شامل تھے۔ اس ضمن میں فقیر سید وحید الدین اپنی معروف کتاب روزگار فقیرجلد اول میں بتاتے ہیں کہ مزارکی چھت کیلئے جو اشعار منتخب کئے گئے وہ ایک مخصوص کمیٹی کی سعی وفکر اور تلاش کا نتیجہ تھے۔ یہ کمیٹی چوہدری محمدحسین، راجہ حسن اختر اور خواجہ عبدالرحیم پر مشتمل تھی۔ مشہور خطاط ابن پروین رقم نے ان اشعار کو اس قدر حسن زیبائی کے ساتھ رقم کیا کہ فن کتابت کا ایک شاہکار پتھر کے قالب میں ڈھل گیا۔1950ء میں جب رضا شاہ پہلوی، شہنشاہ ایران، مزار اقبال پر فاتحہ خوانی کیلئے آئے تو ان اشعار کو دیکھ کربے ساختہ ان کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا خوشخطی خوب است‘‘۔

ای پیپر دی نیشن