اکیس اپریل کو ملک بھر میں علامہ اقبال کا یوم وفات منایا جاتا ہے۔ہر برس کی مانند اس بار بھی حکیم الامت کا یومِ وفات پورے عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ پوری قوم اس حوالے سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ہر ممکن ڈھنگ سے حضرت علامہ کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ کیونکہ کسے معلوم نہیں کہ اقبال نے پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے وہ قائدانہ کردار ادا کیا جس کا معترف ایک زمانہ ہے۔ اسی تناظر میں سبھی ذی شعور حلقوں نے کہا ہے کہ اقبال کی شاعری نے نہ صرف بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے الگ اور ا?زاد خطہ زمین کا تصور پیش کیا بلکہ اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قائد اعظم کی قیادت میں مملکت خدا داد کے قیام کے لئے انتھک محنت بھی کی۔ اس ضمن میں اکثر حلقوں کی رائے تو یہ ہے کہ علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کرنے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں مسلمانوں کو قائد بھی ڈھونڈ کر دیا جس نے چند ہی برسوں میں پاکستان کے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ بوجوہ تا حال وطن عزیز غالباً اس شکل میں نہیں ڈھل پایا جس کا خواب قائد اور اقبال نے دیکھا تھا۔ توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ اپنے مسائل کو احسن ڈھنگ سے حل کر ے گی اور مخالفین کی سازشوں کا پوری طرح قلع قمع کر دے گی۔ خاصے عرصے سے بعض بد خواہ حلقے حسبِ روایت نظریہ پاکستان اور وطنِ عزیز کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار مبصرین نے کہا ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی بھارتی وزیر اعظم ’ ’ نہرو‘‘سمیت بہت سے سیاسی اور غیر سیاسی زعما ملکی بقا کے حوالے سے وقتاً فوقتاًپاک دشمنی میں اپنی خواہشات پر مبنی ’’ ڈیڈ لائنز‘‘ دیتے رہے ہیں۔ اس کا اگر سرسری سا بھی جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ بلاشبہ ملکی حالات گزشتہ برسوں میں خاصے انحطاط کا شکار رہے۔مگر اس ضمن میں تصویر کا ایک دوسرا روشن پہلو بھی ہے جس کا تذکرہ کئی بھارتی دانشوروں تک نے کیا۔رام موہن اور پرکاش سنگھوی نامی ہندو دانشوروں نے کہا ہے کہ ’’ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کی اقتصادی و معاشرتی اور امن امان کی صوتحال کچھ برسوں پہلے تک خاصی مخدوش تھی اور بظاہر اس ضمن میں بھارت بہتر پوزیشن میں تھا۔ مگر پاکستان کو جو سب سے بڑا مثبت پوائنٹ حاصل ہے ، غالباً اس جانب اکثر دانشوروں کی نظر نہیں جا رہی وہ یہ کہ پاکستان کے تمام طبقات کو بحیثیت مجموعی اس امر کا ادراک ہو چکا ہے کہ ان کے یہاں سب اچھا نہیں لہذا اگر اس صورتحال کو بہتر بنانے کی جانب سنجیدہ توجہ نہ دی گئی تو معاملات میں اصلاح خاصا مشکل امر ہو سکتی ہے۔ اپنے اسی ادراک اور شعور کی بنا پر پاکستانی معاشرے پر ماضی قریب میں کافی بے چینی اور اضطراب کے آثار واضح طور پر نظر اتے تھے اور ہر کوئی چاہے زبانی طور پر ہی سہی اس صورتحال کا اعتراف کرتا نظر آیا اور اس میں بہتری کا مطالبہ کیا گیا اور اسی پس منظر میں افواج پاکستان کے ساتھ مل کر ملک کے سبھی حلقے اس ضمن میں اپنی مثبت توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔
بقول اقبال
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے‘ لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
اور ثابت کر دے گا کہ اقبال نے صحیح کہا تھاکہ
’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیر ہے ساقی ‘‘
٭…٭…٭