مجھ جیسے کالم نگاروں کا اصل گناہ یہ ہے کہ ہم عوام کو ابھی تک سمجھا نہیں پائے ہیں کہ پاکستا ن کا ریاستی نظام اور لوگوں کو قابو میں رکھنے کا ڈھانچہ بہت طاقت ور ہے۔ ہمارے خطے میں اسے برطانوی استعمار نے 1846ء میں پنجاب پر قبضے کے بعد متعارف کروانا شروع کیا تھا۔اس کے سوبرس بعد آزادمملکت کہلانے کے باوجود ہمارے حکمران مذکورہ ڈھانچے کو مضبوط تر بناتے رہے۔ اس ڈھانچے سے اُکتائے عوام کو ہمارے دانشور محض ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘والا نغمہ تالیوں کی تھاپ سے گنگناتے ہوئے ہی بہلاتے رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد کی بدولت معزولی کے بعد ویسا ہی ماحول بنا ہوا ہے۔سابق وزیر اعظم کے مداحین ’’وہ وقت قریب آپہنچا ہے‘‘ کی امید دلارہے ہیں۔میں ان کے منہ میں ’’گھی شکر‘‘ کی دُعا ہی مانگ سکتا ہوں۔
پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کے ستونوں اور حرکیات کو اخبار کے لئے لکھے کالم کے ذریعے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ویسے بھی سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔اپنے دلوں میں جمع ہوئے تعصبات وخواہشات کو چسکہ بھری وڈیوز سے اجاگر کرتے ہوئے اپنا ’’رانجھا راضی‘‘ اور لوگوںمیں ہیجان برپا کیا جاتا ہے۔سنجیدہ گفتگو کی طلب معدودے چند افراد ہی کو محسوس ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا کی پھیلائی واہی تباہی سے دورِ حاضر میں مفر ممکن نہیں۔روایتی میڈیا کی تاہم اب بھی چند ذمہ داریاں ہیں۔ اچھے بھلے اور تجربہ کار صحافی بھی جب ان سے پہلوتہی کریں تو افسوس ہوتا ہے۔مثال کے طورپر عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے فوری بعد ہمارے سوشل میڈیا پر بحث یہ چھڑگئی کہ شہباز شریف تو وزیر اعظم بن گئے اب ایوان صدر میں ڈاکٹر عارف علوی کی جگہ کون براجمان ہوگا۔ ممکنہ صدر کا نام تلاش کرتے ہوئے کسی صاحب نے اس شے سے رجوع کرنے کا تردد ہی نہ کیا جسے تحریری آئین کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی یقینا آئین کی پاسداری کے بجائے عمران خان صاحب سے دیوانہ وار ذاتی وفاداری نبھارہے ہیں۔غضب سے مغلوب ہوکر انہوں نے شہباز شریف سے وزارت عظمیٰ کا حلف لینے سے انکار کردیا۔منگل کے روز بنائی وفاقی کابینہ کے حلف کی بابت بھی انہوں نے بیماری کا بہانہ بنایا۔اس ’’منتخب‘‘ صدر کے برعکس علاوہ جو فوجی نہیں بلکہ سویلین بھی ہے جنرل مشرف بھی تھے۔اکتوبر 1999ء میں اقتدار پر قابض ہوئے۔کئی برس پورے جاہ وجلال کے ساتھ اختیارات سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہونے کے بعد بالآخر 2008ء میں زوال کی جانب لڑھکنا شروع ہوگئے۔ اس برس منعقد ہوئے انتخاب کی بدولت ابھرے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے مگر انہوں نے حلف لینے میں قابل ستائش بردباری دکھائی۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (نون) سے جو وزراء کابینہ میں شامل کئے تھے وہ اپنے بازو پر کالی پٹیاں باندھ کر ایوان صدر گئے تھے۔ جنرل مشرف ان سے بھی دل کڑا کرتے ہوئے حلف اٹھانے کو مجبور ہوگئے۔عارف علوی نے مگر ڈھٹائی کی نئی مثال قائم کردی ہے۔ یہ ڈھٹائی 1950ء کی دہائی والے گورنر جنرل غلام محمد کی برتی بلغم مزاجی کو بھی بھلادے گی۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ عارف علوی کو ’’پٹہ‘‘ کیسے ڈالا جائے۔
ہمارا تحریری آئین صدر مملکت کو فوری عدالتی کارروائی سے محفوظ رکھتا ہے۔آئینی تقاضوں سے ڈھٹائی کے ساتھ گریز کی سزا فقط منتخب پارلیمان ہی فراہم کرسکتی ہے۔اس تناظر میں آپ کو آئین کے آرٹیکل 47پر توجہ دینا ہوگی۔ اس آرٹیکل میں واضح انداز میں لکھ دیا گیا ہے کہ صدر کے مواخذے کے آغاز کے لئے لازمی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی اجتماعی تعداد میں سے آدھی تعداد اس ضمن میں تحریری قرار داد جمع کروائے۔ یہ قرار داد باضابطہ تسلیم کرلی جائے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہوگا۔وہاں مذکورہ قرارداد پر بحث کے بعد صدر کو دو تہائی اکثریت کی حمایت ہی سے گھر بھیجا جاسکتا ہے۔
ہماری قومی اسمبلی 342اراکین پر مشتمل ہے ۔سینٹ کے 100اراکین ہیں۔ان کی مجموعی تعداد 442ہوگئی۔اس تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے محض یہ جاننے کی کوشش کریں کہ تحریک انصاف کے تمام مخالفین کے ہاں اس تعداد کے تناظر میں دو تہائی اکثریت میسر ہے یا نہیں۔آپ کی آسانی کے لئے بتادیتاہوں کہ ہرگز نہیں۔
جٹکا حساب جو آپ کی نذر کرنے کی کوشش کی ہے اس جانب توجہ ہی نہیں دی جارہی۔سوشل میڈیا پر اگرچہ بحث چھڑگئی کہ عارف علوی کی جگہ مولانا فضل الرحمن لیں گے یا آصف علی زرداری۔اس بحث نے مجھے پنجابی کا وہ محاورہ یاد دلایا جو گائوں بسنے سے کئی ماہ قبل ہی ان اچکوں کا تذکرہ کرتا ہے جو اسے لوٹنے کی تیاری کررہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کا ذکر چلا تو ہمارے سوشل میڈیا پر ’’لبرل اقدار‘‘ کے پاسداران چراغ پا ہوگئے۔ خواتین کے حقوق کی محافظ اس ضمن میں جارحانہ پیش قدمی دکھاتی رہیں۔ان کے برعکس آصف علی زرداری کی ’’شہرت‘‘ بھی زیر بحث آنا شروع ہوگئی۔
سوشل میڈیا پر احمقانہ جوش وجذبے سے ڈاکٹر عارف علوی کا متبادل تلاش کیا جارہا تھا تو میں اسے نظرانداز کرتا رہا۔منگل کے دن سے تاہم ہمارے روایتی میڈیا پر چھائے کئی ’’جید‘‘ صحافی بھی یہ دعویٰ کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے دورئہ لندن کا اصل مقصد اس شہر میں مقیم نواز شریف کو اس امر پر قائل کرنا ہے کہ صدر مملکت کے منصب کے لئے آصف علی زرداری کو موجودہ مخلوط حکومت ’’مشترکہ امیدوار‘‘ کے طورپر اپنالے۔ انہوں نے اگر ’’ہاں‘‘ کردی تو بلاول بھٹو زرداری وطن لوٹ کر بطور وزیر خارجہ حلف اٹھالیں گے۔یہ دعویٰ کرتے ہوئے مجھ گوشہ نشین ہوئے منشی کو جید صحافیوں نے یہ بتانے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی کہ فرض کیا نواز شریف رضا مند نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی کیا رویہ اختیار کرے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اگر وزارت خارجہ کا منصب نہ سنبھالا تو ان کی جانب سے وفاقی کابینہ میں بھیجے وزراء اپنے عہدوں پر بدستور فائزرہیں گے یا نہیں۔وہ اگر کابینہ سے مستعفی ہوگئے تب بھی شہباز حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے یا نہیں۔فرض کیا یہ حمایت میسر نہ رہی تو موجودہ وزیر اعظم ہی نہیں قومی اسمبلی بھی اپنا وجود کیسے برقرار رکھ پائے گی۔ہیجان اور چسکہ فروشی کی ہوس میں ہم ٹھوس سوالات اٹھاہی نہیں رہے۔ان پر غور کرنا تو دور کی بات ہے۔