ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے وہ معروف ترین شاعر مصنف اور عظیم سیاسی رہنما ہیں جن کا ذکر تاریخ میں سنہری حروف میں کیا گیا ہے۔ آپکی ولادت 9بروز جمعہ نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں ہوئی۔آپ کے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے تھے ۔ والد کا نام شیخ نور محمد تھا ۔ جن کا دین اسلام سے گہرا لگاؤ دتھا ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد اقبال نے دینی تعلیم کم عمری میں حاصل کر لی ۔ 1893 میں آپ نے میٹرک اور1895 میں ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ لاھور آ گئے ۔ جہاں آپ نے بی اے 1897 اور ایم اے1899میں پاس کیا ۔ علامہ محمد اقبال نے ایم اے کے امتحان میں پنجاب میں اول پوزیشن حاصل کی ۔ 1905 میں آپ نے برطانیہ سے بار ایٹ لاء کیا جبکہ پی ایچ ڈی جرمنی سے کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ فلسفہ کے پروفیسر رہے بعد ازاں آپ نے وکالت شروع کی ۔ علامہ محمد اقبال کو اسلام اور امت مسلمہ سے بہت گہرا لگاؤ تھا ۔ آپ کے دل میں امت کی خستہ خالی کا درد ہمیشہ رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے وکالت کے پیشہ کو خیر باد کہہ کر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے عملی سیاست میں حصہ لیا ۔ آپ نے اپنی شاعری میں امت کی خستہ خالی کو وجوہات کے ساتھ بیان کیا اور ایک زوال پذیر قوم کو اپنے کلا م کے زریعے نئی زندگی دی۔ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کو دو قومی نظریہ دیا ۔ آپ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں یہ ممکن نہیں کہ ہندو مسلمانوں کے مفادات کی بات کریں لہذا مسلمانوں کی بقا اپنے الگ تشخص کے تحفظ میں ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں انقلابی سوچ پیدا کی۔ جو بعد میں تحریک پاکستان کی صورت میں ایک عظیم اور لا زوال تحریک بن کر ابھری۔ علامہ محمد اقبال کو اپنے پیارے نبی ؐ سے بے پناہ عشق تھا جو کہ آپ کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ آپ نے اپنی شاعری میں نبی کریم ؐ کو اپنی آئیڈیل شخصیت قرار دیا۔ اور امت محمدی کو یہ بات سمجھائی کہ عشق محمد ؐمیں ہی امت کی بقا
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے ترجمہ:’’ تم سب اُمتوں میںسب سے بہتر ہو جو لوگوں کیلئے بھیجی گئی ہو۔ اچھے کاموں کا حکم کرتے ہواور بُرے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو‘‘۔ علامہ اقبال ؒنے مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے 21مارچ 1932ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس منعقدہ لاہور میں اپنے صدارتی خطبے میںکہا‘‘ تم دُنیا میں سب سے زیادہ قابل فخر تہذیب کے مالک ہو۔ تمہارے پاس دُنیا کا بہترین نظام حیات اسلام کی شکل میں موجود ہے تم دوسروں کی تقلید کیلئے نہیں بلکہ امامت اور رہنمائی کیلئے پیدا کئے گئے ہو‘‘۔ علامہ اقبال کو صرف شاعر سمجھ لینا یا یہ کہ ان کے خیالات یا تصورات تمام کے تمام ان کے کلام میں مقید ہوچکے ہیں درست نہیں ہے ان کے فکر ونظر کابہت کم حصہ ان کے کلام میں منتقل ہوچکاہے اکثر ایسابھی ہواہے کہ بعض بالکل نئی باتیں ان پر بغیر کسی کو شش کے منکشف ہوجاتی تھیں ۔فقہ اسلامی میں اجتہاد کے مسٔلے پر بھی اُنہوںنے انگریزی میں بھی کچھ لکھاتھا۔ اُنہوںنے ایک موقع پر فرمایا ’’میں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن کریم نے تجویز کیاہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حدِاعتدال سے تجاوز کر جاتی ہے تو وہ دُنیا کیلئے ایک لعنت ہوجاتی ہے لیکن دُنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریقہ یہ نہیںہے کہ معاشی نظام سے اس کو خارج کردیاجائے جیسا کہ بالشیوک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کومناسب حدود کے اندر رکھنے کیلئے قانون وراثت اور زکوٰۃ وغیرہ کانظام تجویز کیاہے‘‘۔علامہ ڈاکٹر محمد اقبال پاکستان کے خالق ہیں ان ہی کی فکر نے ایک نئی مملکت کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا جہاں سے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کاتعین ہوتاہے۔ آپ نے 1937ء میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو ایک خط لکھاتھا جسکا متن یہ تھا’’ مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف اسلامی آئین اور اسلامی قانون میںہے‘‘۔ ایک نئی مملکت کے قیام کے بارے میں کہا’’ میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد ،سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندرخود اختیاری حاصل کرے خواہ اسکے باہر، مجھے تو ایسا نظر آتاہے اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑیگی ۔ آ پ کو مسلمان قائدین میںایک اعلیٰ مقام حاصل ہے اُنہوںنے عملی سیاست میں بھی بہت حد تک حصہ لیاتھا لیکن اُنہوںنے مسلمانوں کیلئے تعمیری
کردار اداکیا او ر بحیثیت مجموعی ان کی اسلام اور مسلمان قوم کیلئے خدمات دور رس نتائج کی حامل تھیں۔ اُنہوںنے نہ صرف ترکی کی بے حد حمایت کی بلکہ اتحاد ملی کو ابھارا اور سامراجیت کو بھرپور طریقہ سے بے نقاب کیا ، سرمحمد اقبال کا خواب تھا کہ مسلمانوں کی ایک الگ اور خود مختار مملکت ہو جہاں وہ اپنی مرضی سے دین اسلام کے مطابق ذندگی بسر کر سکیں ۔ اقبال کا یہ خواب 14 اگست 1947 کو پورا ہوا لیکن علامہ کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی ۔ آپ پاکستان بننے سے تقریبا 9 سال قبل طویل علالت کے بعد 21 اپریل 1938 کو لاہور میں فجر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ حکیم الامت کا مزار لاھور میں ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دید آور پیدا
علامہ اقبالؒ بیسویں صدی کے عظیم
Apr 21, 2022