بندوق کے زور پر مذاکرات نہیں ہوسکتے : بلاول ، سپریم کورٹ جائیں گے نہ بات چیت ہوگی : فضل الرحمن 

اسلام آباد (نیٹ نیوز) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ شنگھائی کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت جاو¿ں گا۔ وزرائے خارجہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کروں گا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ہم نے نہیں کسی اور نے 90 دن الیکشن کی خلاف ورزی کی۔ آدھی سے زائد اسمبلی نے استعفے دیئے۔ پشاور، سندھ ، لاہور ہائی کورٹ سے پی ٹی آئی اراکین نے سٹے آرڈر لیے کہ ضمنی الیکشن نہ ہو۔ پنجاب میں آج تک بلدیاتی الیکشن بھی نہیں ہو سکے۔ خیبر پی کے میں بھی ایک اسمبلی ٹوٹ چکی وہاں الیکشن نہیں ہوئے۔ سندھ میں بلدیاتی الیکشن کو ایک سال ہو چکا ہے۔ آج تک ہم اپنا میئر منتخب نہیں کر سکے۔ 90 دن کی آڑ میں پنجاب کا الیکشن پہلے کرانے کی سازش ہے۔ ہم کل اور آج بھی ون یونٹ کے خلاف ہیں۔ اگر زبردستی پنجاب میں الیکشن پہلے کرایا گیا تو وفاق کے الیکشن اور باقی صوبوں پر اثر پڑے گا۔ یہ بیک ڈور سے ملک میں ون یونٹ لاگو کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ہم پہلے اتحادیوں کو ڈائیلاگ کیلئے ایک پیج پر لانا چاہتے ہیں۔ ہم ایک دن میں پورے ملک میں الیکشن کرانے کے حامی ہیں۔ پارلیمان نے ایگزیکٹو کو پابند کیا ہے فور، تھری بینچ کے فیصلے پر عمل کرنا ہے۔ پی ڈی ایم فور، تھری کے فیصلے اور پارلیمان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم متحد ہے، عید کے بعد ہم نے ڈائیلاگ کو آگے بڑھانا تھا۔ ہماری مذاکراتی کمیٹی نے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کیے۔ کل میں خود ڈیرہ اسماعیل خان ڈائیلاگ کیلئے گیا تھا۔ بات چیت کی کوشش چل رہی ہے اور چلتی رہے گی، اتحاد میں ایک دو چیزوں پر اتفاق بنانا مشکل ہوگا، ہمارے اتحادی سمجھتے ہیں ڈائیلاگ پارلیمان و سینٹ میں ممکن ہے، کسی اور ادارے میں سیاسی بات چیت سے اتحادیوں کو منانا مشکل ہوگا۔ سپریم کورٹ میں پنچایت لگا کر اتحادیوں کو نہیں منا سکتے، زبردستی اکثریتی فیصلے کو سر پر گن رکھ کر مسلط کیا جا رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں سیاسی قوتوں کے درمیان بات چیت ضروری ہے۔ عام آدمی کو کوئی دلچسپی نہیں کتنے بینچ کا فیصلہ تھا، معاشی صورتحال نے عام آدمی کا جینا حرام کر دیا۔ افسوس معاشی حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے پولرائز ماحول میں آپریٹ کر رہے ہیں۔ اتحادیوں کو قائل کریں گے کہ اتفاق رائے پیدا ہو جائے، پورے ملک میں ایک دن میں الیکشن کرانے پر اتفاق رائے قائم کیا جائے، سر پر بندوق رہی تو اتحادیوں کو نہیں منا سکوں گا، سر پر بندوق رکھ کر مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے، سیاسی استحکام ہو گا تو معاشی استحکام آئے گا۔ ایک سوچ ہوگی جج صاحبان کسی کا ٹرائل کر رہے ہیں لیکن ان کا اپنا بھی ٹرائل ہو رہا ہے۔ عدالتی تاریخ میں جتنی تقسیم آج ہے پہلے نہیں رہی۔ امید کرتا ہوں چیف جسٹس اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے ادارے میں یونٹی قائم کریں، اگر یونٹی قائم کریں گے تو تاریخ بھی جسٹس بندیال کو عزت دے گی۔ ایک صوبے میں انتخابات پہلے ہوجاتے ہیں تو نتائج کا اثر باقی 3 صوبوں پر پڑے گا۔ کوشش کر رہے ہیں کہ اتحادیوں کو ایک پیج پر لائیں کہ ڈائیلاگ ضروری ہیں۔ مل کر اتفاق رائے پیدا کرنا تھا کہ ڈائیلاگ کا طریق کار کیا ہونا ہے۔ کائرہ اور یوسف گیلانی وفد کی صورت اتحادیوں کے پاس گئے۔ مسائل کا حل نہیں نکالتے تو وفاق اور جمہوریت کو خطرہ ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام آئے گا۔ عام آدمی کو سیاسی جماعت کے بیان سے دلچسپی نہیں۔ عام آدمی کو بھوک‘ بچوں کے سکول اور والدین کی دوا کی فکر ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ عام آدمی کو مسائل سے نکالیں۔ دوملکی معاملات ایس ای او فورم پر نہیں اٹھائے جا سکتے۔ جن ججز نے بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا‘ تاریخ نے ان کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت میں جو بھی ہو رہا ہے‘ وہ افسوسناک ہے۔ ہماری جمہوریت کافی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ کوشش ہے کہ جمہوریت بچائیں‘ خطرے موجود ہیں۔بلاول نے کہا ہے اگر 14مئی کے فےصلہ کی گن سر پر رہے گی تو اتفاق رائے حاصل کرنا مشکل ہے۔ اسے معطل ےا سٹے ہونا چاہے، تاکہ بات چےت کے لئے ماحول بناےا جا سکے۔ کوئی بھی بندوق کے زور پر مذاکرات نہیں کروا سکتا۔ ڈائیلاگ سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ مسائل کا حل نہیں نکلتا تو وفاق اور جمہوریت کو خطرہ ہے۔ ہمارا مو¿قف ہے کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، 90 میں پر امید تھا کہ عید کے بعد سربراہ اجلاس کا مثبت نتیجہ نکلے گا۔ ہماری کوشش ہو گی کہ فضل الرحمان کو قائل کریں۔ ان کے تحفظات دور کریں۔ سپریم کورٹ ایک قانونی فورم ہے۔ پارلیمنٹ سیاسی فورم ہے، ہم چاہتے ہیں ہر ادارے کی عزت کی جائے، سپریم کورٹ ایک ادارہ ہے، پارلیمان ایک ادارہ ہے، پارلیمان کی عزت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔

پشاور (نوائے وقت رپورٹ) مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پہلے بندوق اور اب ہتھوڑے کے سامنے مذاکرات کا کہا جا رہا ہے۔ کب تک اس طرح گمراہ کیا جاتا رہے گا۔ جس عدالت پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا ہے اس کے سامنے کیوں پیش ہوں۔ سپریم کورٹ عمران خان کو سیاست کیلئے اہل بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مذاکرات کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران کو اس کا اہل نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ بات چیت کریں۔ سپریم کورٹ فریق بن چکی ہے اور 14 مئی میں پھنسی ہوئی ہے۔ عدالت اب کیوں راستہ مانگ رہی ہے۔ ایک ہی روز الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنی پوزیشن واضح کرے کہ وہ عدالت ہے یا پنچایت ہے۔ ہم عدالتی جبر کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ بلاول بھٹو مفتی عبدالشکور کی وفات پر تعزیت کے لیے آئے تھے۔ میری بلاول بھٹو اور ٹیلی فون پر آصف زرداری سے بات ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور وزراءنے فون پر بات کی۔ آئین کی رو سے 90 دن میں انتخابات کرانا ناگزیر ہیں لیکن عمران خان کسی تاریخ پر اتفاق کرلیں تو صحیح ہے۔ جس شخص کو سیاست سے باہر رکھنا چاہیے تھا سپریم کورٹ اسے سیاست کا محور بنا رہی ہے۔ عدالت جس اختیار کے تحت دھونس دکھا رہی ہے وہ اس کا اختیار نہیں رہا۔ عدالت کہہ رہی ہے کہ آپ عمران خان سے بات کریں اور الیکشن کی کسی ایک تاریخ پر اتفاق کریں۔ ہم نے مو¿قف دیا کہ عدالت اپنی پوزیشن واضح کرے کہ وہ عدالت ہے یا پنچایت ہے۔ جس بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے اس کے سامنے میں پیش ہو جاو¿ں؟۔ اس بینچ پر پارلیمان نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور متعدد قراردادیں منظور کی ہیں۔ اٹارنی جنرل بھی عدالت کو بینچ پر عدم اعتماد کا بتا چکا ہے۔ سربراہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا کہنا تھا عمران خان کو چار پانچ مقدمات کا سامنا ہے، وہ نااہل ہو سکتے ہیں۔ عدالت عمران خان کے لیے لچک پیدا کر سکتی ہے تو ہمارے لیے کیوں لچک پیدا نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ اپنے رویے میں لچک پیدا کرے، ہم انصاف کو تسلیم کرتے ہیں، آپ کے ہتھوڑے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم عدالت کے اس جبر کو تسلیم نہیں کرتے۔ جبر سے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم عوام کی عدالت میں جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن