سوشل میڈیا پر ایک آڈیو لیک رونما ہونے کے بعد ”خبر“ یہ پھیل چکی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تحریک انصاف کی ٹکٹ کے خواہش مندوں کو کم از کم ایک کروڑ روپے ”پارٹی فنڈ“ میں جمع کروانے پڑے ہیں۔ مذکورہ ”خبر“ کی تصدیق یا تردید کے میں ہرگزقابل نہیں۔صحافیانہ تجسس اگرچہ خواہش مند ہے کہ میرے نوجوان اور متحرک ساتھی تھوڑی محنت سے پتہ لگائیں کہ صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے سے اوسطاََ کتنے امیدواروں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ کے حصول کے لئے تگ ودو کی۔جبلی طورپر اگرچہ محسوس کررہا ہوں کہ اوسطاََ ایسے امیدواروں کی کم از کم تعداد تین کے قریب ہوسکتی ہے۔مذکورہ ٹکٹ کے حصول کے لئے مالی اور سماجی روابط کا جس لگن سے استعمال ہواوہ ان سرویز کو بھی درست دکھارہا ہے جو تحریک انصاف کو پنجاب کے انتخاب میں 230سے زیادہ نشستیں دلوارہے تھے۔مختصراََ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد پنجاب حکومت بنانے کی حتمی دعوے دار بن جائے گی۔
مذکورہ تاثر اگر درست ہے تو عمران خان صاحب سے یہ توقع باندھنا بھی خام خیالی ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کی تازہ تجاویز کی روشنی میں مخالف جماعتوں سے مذاکرات کو رضا مند ہوجائیں۔پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14مئی کے دن ہی منعقد کروانے پر زور نہ دیں۔اس امر پر اتفاق کرلیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت منعقد ہوں۔فرض کیا وہ اس پر رضا مند ہوبھی جائیں تو شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی وفاقی حکومت کو اکتوبر کے بجائے قبل از وقت انتخابات کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔اس تناظر میں ”لچک“ دکھانے کی ذمہ داری فقط وفاقی حکومت کے سر ہی تھونپی جائے گی۔ اس سے روگردانی اگر ممکن نہیں تو اسحاق ڈار کو آئندہ مالیاتی سال کا بجٹ تیار کرنے کے لئے انگریزی محاورے والا ”مڈ نائٹ آئل“ کو جلانے کی ضرورت نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو مائل کریں کہ وہ جلد از جلد مستعفی ہونے کی تیاری کریں۔ رواں سال کے جون سے قبل اگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن منعقد کروانا ممکن نظر نہ آئے تو مذکورہ انتخابات سے قبل تشکیل پائی نگران حکومت چند ماہ کے لئے ”عارضی بجٹ“ متعارف کرواسکتی ہے۔”فریش مینڈیٹ“ کے ساتھ قائم ہوئی حکومت بعدازاں اسے حتمی شکل دے سکتی ہے۔
تخت یا تختہ والی جنگوں میں نیک نیتی سے اختیار کردہ ”لچک“ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے ماحول میں ”ہتھیار ڈالنے“ کے متراف تصور ہوتی ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ شہباز شریف اور ان کے وفادار کھلے دل سے انتخابی میدان میں اترے بغیر ہی ”آئینی یا قانونی بحران“ ٹالنے کی خاطر یہ رویہ اختیار کرنے کو آمادہ ہیں یا نہیں۔سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہوئے مذاکرات سے لہٰذا ذاتی طورپر میں ”خیر“ کی خبرنمودار ہوتے نہیں دیکھ رہا۔ معاملات ان مذاکرات کی بدولت عمران خان صاحب کے لئے ”چت بھی اپنی پت بھی“ والا ماحول بناتے نظر آرہے ہیں۔اسی باعث میں مولانا فضل الرحمن کی جانب سے عمران خان صاحب کے ساتھ مذاکرات سے انکار کو حیران کن محسوس نہیں کررہا۔ وہ اپنے مو¿قف پر ڈٹے رہے تو موجودہ حکومت کا برقرار رہنا ناممکن ہوجائے گا۔پیپلز پارٹی اسے خداحافظ کہنے میں پہل لے سکتی ہے۔یہ کوڑھ مغز مگر اس کے بعد کیا ہوگا والا منظر سوچنے کے قابل نہیں۔مزید حیران ہونے کو لہٰذا دل وجان سے تیار ہوں۔
حیرانی کا ذکر آزادکشمیر کی تازہ ترین صورتحال کی وجہ سے بھی کرنے کو مجبور ہوں۔تحریک انصاف نے ”سیم پیج“ کے بابرکت موسم میں مریم نواز اور بلاول بھٹو کی جانب سے آزادکشمیر کے انتخابات کے لئے بھرپور انداز میں چلائی مہم کے باوجود بھاری بھر کم اکثریت حاصل کرلی تھی۔ اس کے نتیجے میں نیازی صاحب کی چند روزہ وزارت عظمیٰ کے بعد سردار تنویر الیاس اس منصب پر فائز ہوئے۔وہاں کی عدالت نے مگر چندروز قبل انہیں ”توہین عدالت“ کا مرتکب ٹھہراکر ”نااہل“ ٹھہرادیا۔ اپنی عددی اکثریت کی بدولت عمران خان صاحب ان کی جگہ اپنی جماعت سے کسی اور شخص کو نامزد کرتے ہوئے بآسانی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرسکتے تھے۔ایسا مگر ہو ا نہیں۔تحریک انصاف متحدنہ رہی۔اس میں فارورڈ بلاک بننا شروع ہوگئے۔
”فارورڈ بلاک“ کی بات چلی تو پہلا تاثر یہ پھیلا کہ آزادکشمیر میں جوڑ توڑ والی سیاست کے کائیاں کھلاڑی بیرسٹرسلطان محمود نے جو تحریک انصاف کی بدولت ”صدر ریاست“ بھی ہیں”اپنی گیم“ لگاچکے ہیں۔موصوف کو پیپلز پارٹی کی حمایت بھی میسر ہوگئی۔ مسلم لیگ (نون) کی مقامی قیادت بھی ان سے مک مکا کو رضا مند تھی۔ نواز شریف ابھرتے بندوبست سے چوکنا ہوگئے۔ آزادکشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے دو نمائندے وہاں بھیجے۔
سلطان محمود کے ساتھ مگر ”سجی“ والا معاملہ ہوگیاہے جوپنجابی محاورے کے مطابق ”کھبے“یعنی بائیں ہاتھ سے لگائے وار کو زیادہ کارآمد دکھاتا ہے ۔بدھ کی رات آزادکشمیر کی اسمبلی کے سپیکر کی قیادت میں ایک اور فارورڈ بلاک نمودار ہوگیا۔اس کی بدولت انوار الحق آزادکشمیر کے ”متفقہ“ وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ان کے ساتھ مل کر ایک ہی گھاٹ کے پانی سے لطف اندوز ہوں گی۔
آزادکشمیر میں جو کھچڑی پک رہی تھی عمران خان صاحب اس کے بارے میں حیران کن حد تک لاتعلق رہے۔ایسا ہی عالم ان دنوں انہوں نے خیبرپختونخواہ کی بابت اختیار کررکھا ہے۔ان کی ساری توجہ ”تخت لہور“ تک محدود ہوچکی ہے۔توجہ کا یہ ارتکاز بالآخر کیا گل کھلائے گا اس کی بابت بھی اپنا کند ذہن قیاس کے گھوڑے دوڑانے کے قابل نہیں۔ ربّ کا صد شکر کہ آج کا کالم لکھنے کے بعد میں عید کی تعطیلات سے جی بہلائے رکھوں گا۔
”تخت لاہور“ تک محدود عمران خان کی توجہ
Apr 21, 2023