شاعرمشرق کا رنگِ س±خن

Apr 21, 2023

رابعہ رحمن

اے ارضِ پاک! تیری ح±رمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
دلپذیرتحریروں میں سے ایک تحریر اقبال کا رنگ سخن نظرسے گزرا اس میں پروفیسر زاہدلکھتے ہیں کہ مہر عظیم شاعر کا ایک اپنا رنگِ سخن ہوتاہے جو اسے اقلیمِ سخن کی بھیڑ میں منفرد و ممتاز اور نمایاں رکھتاہے۔ مگر اقبال کا کائناتی و آفاقی رنگِ سخن، گلشنِ سخن میں کھلے ہوئے تمام پھولوں کی رعنائیوں اور خوشبوﺅں کا ایک ایسا سنگم ہے جس میں میر کا سوز، سودا کا شِکوہ، میر حسن کا سحر، درد کا تصوف اور غالب کا فلسفہ یک جا ہو جاتا ہے۔
اقبال کا رنگِ سخن ان ہی کی شرکت کا خاصہ ہے۔ رنگِ سخن کی اس قوسِ قزح کو انہوں نے اپنے خون پسینے سے سینچا۔
مدیر ”مخرن“ شیخ عبدالقادر رقم طراز ہیں:
”جب اقبال سکول میں پڑھتے تھے، اس وقت سے ہی ان کی زبان سے کلامِ موزوں نکلنے لگا تھا۔“
جب اقبال نے شعور کی آنکھیں کھولیں تو اس وقت ادبی حلقوں میں مرزا داغ کی شاعری کا شہرہ دور دور تک تھا۔ 
مرزا داغ سے اصلاح و درستی کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا لیکن جب داغ نے یہ لکھا کہ آپ کو اصلاح کی ضرورت نہیں تو وہ باقاعدہ شاعری کرنے لگے اور بہت تھوڑے عرصے میں ان کی شہرت نہ صرف لاہور بلکہ سارے ملک میں پھیل گئی۔ شروع ہی سے ان کی غزل میں فکری رجحان کی جھلک نظر آتی ہے۔
اسی فکری رجحان کی وجہ سے قومی انجمنوں نے ان کو اپنی نظمیں جلسوں میں پڑھنے پر آمادہ کیا۔ 1899ءسے اس کا آغاز ہوا۔ جب انہوں نے اپنی نظم ”نالہءیتیم“ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی تو حاضرین کا اس پر گہرا اثر ہوا اور ”ملی شاعر“ کی حیثیت سے اقبال کی شہرت پھیل گئی۔
1901ءسے 1905 تک اقبال عموماً ”مخزن“ کے ہر نمبر کے لئے کوئی نہ کوئی نظم لکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ولایت جانے سے قبل ہی اقبال کی شاعرانہ حیثیت مسلّم ہو گئی تھی۔
جب اقبال نے داغ کی شاگردی اختیار کی تو ا±س وقت لاہور کا اسٹیج دو شعراءارشد گورگانی اور ناظم لکھنوی کے قبضے میں تھا۔ دونوں داغ کی روایت کے پاس دار تھے۔ ایک اگر دہلویت کا علم بردار تھاتو دوسرا لکھنو کا طرف دار تھا۔
اقبال نے دونوں بزرگوں سے فیض اٹھایا۔ ارشد گورگانی کے وہ بہت قریب رہے۔ داغ کے کلام میں تین مقامات کا رنگ نمایاں ہے، دہلی لکھنو اور رام پور، جب داغ رام پور آئے تو دہلی کی داخلیت اپنے ہمراہ لائے۔ رام پور میں ان کا مقابلہ لکھنو کے مشہور شاعر امیر مینائی سے ہوا تو پھر لاشعوری طور پر داغ نے امیر مینائی کا رنگ سخن اپنا لیا۔
اب داغ کے کلام میں دہلویت اور لکھنویت دونوں عناصر شامل ہو گئے۔ اس کے بعد دکن جانے پر داغ نے اس ماحول کا رنگ بھی اپنے کلام میں شامل کرلیا۔ گویا داغ کے کلام میں بوقلمونی اور رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔
داغ کی شاگردی کے باعث اقبال کی شاعی میں یہ جھلک تو ضرور آنی تھی۔
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
داغ کی شاعری کا یہ اثر غزلوں پر ہی نہیں پڑا بلکہ نظموں پربھی ہوا۔ مثال کے طور پر ”فریاد امت“ کو سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ الفاظ، محاورات، تلمیحات اور خیالات کا عکس داغ کا ہی نظر آتا ہے۔ مگر داغ کا اثر محددودعرصے تک ہے۔
اقبال کی فکر رسا طبیعت دیر تک کسی کے تابع نہیں رہ سکتی۔ طاہر فاروقی نے سیرتِ اقبال اور مولاناعبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب ”اقبالِ کامل“ میں اقبال کی شاعری کو چارادوار میں تقسیم کیا ہے۔
”پہلا دور ابتداءسے 1905ءتک ، دوسرا دور 1905ءسے لے کر 1908ءتک، تیسرا دور 1908ءسے لے کر 1924ءتک، چوتھا دور 1924ءسے لے کر 1938ء تک، جبکہ ”لطیفِ اقبال“ میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے ان کی شاعری کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا۔ ”اردو شاعری کی داستان“ کا مو¿لف اے حمید رقم طراز ہیں:
”اقبال کی شاعری کا ہر دور ایک ہی فلسفہءحیات کا حا مل ہے۔ اقبال کی شاعری میں پیغامِ عمل ہے جو فلسفہ حرکت وحیات ہے، جو دعوت ہے، وہی اس کی شاعری کی جان ہے۔
اقبال نے تخیل کی جولانیوں کے لئے ایسے ایسے میدان کھول دیئے ہیں جن کی طرف اس سے قبل اردو شعراءکی توجہ منعطف ہی نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے خیالی اور مصنوعی شاعری کو خیرآباد کہا۔ ا±ردو شاعری کا فرضی معشوق اپنی کمر کی طرح خودبھی عنقا ہو گیا۔ 
اقبال نے لفظی چٹکلوں اور دور ازکارمحاورہ بندیوں کی جگہ حقائق کی تلخیوں اورحالاتِ حاضرہ کے ناگفتہ بہ مسائل کو اس خوبی سے شاعری میں داخل کیا کہ ا±رد و شاعری کے موضوع ہی بدل گئے ہیں۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
اقبال کاموضوعاتی مطالعہ انتہائی وسیع ہے اور ان کے کائناتی تخیل و آفاقی نقطہ نظر میں ان کے رنگِ سخن کی جو قوس قزح ہے وہ بھی انتہائی دلکش ہے۔
اقبال کے رنگِ سخن میں گل و لالہ کا بانکپن، شوخی اور مستی پائی جاتی ہے۔ باغ و بہار، گل و گلزار اورسبزے کی شادابی و تازگی کلامِ اقبال کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پت جھڑ، خزاں اور د±کھ درد کی کسک اور چ±بھن بھی کلامِ اقبال میں پائی جاتی ہے۔ 
اقبال کے کلام میں آفاقیت اور ہمہ رنگی پائی جاتی ہے۔ اقبال کا ذکر چاہے فلسفیوں میں ہو، دانشوروں میں ہو یا شاعروں میں ہو ہرجگہ اپنی آفاقیت اور سحر بیانی کا سحر بکھیرتا نظر آئے گا۔شاعرمشرق علامہ محمداقبال جتنے عظیم شاعر تھے ان کا فلسفہ فکر خودی اورمردمومن کا پیغام اس سے بڑھ کر دنیا میں اپنا رنگ لایا اورعلامہ اقبال کو ہرموقعے پر اسی طرح یاد کیاجاتاہے اور عہدوپیماں کئے جاتے ہیں کہ ہم اقبال کے کلام اور اس کی تاثیر کو کبھی ختم نہیں ہونے دینگے۔

مزیدخبریں