”عاشقِ رسول ، مصّور پاکستان ، علاّمہ محمد اقبال!“ 

معزز قارئین ! آج 21 اپریل کو، اہل ِ پاکستان اور بیرونِ پاکستان فرزندان و دُخترانِ پاکستان نے اپنے اپنے انداز میں عقیدت و احترام سے عاشق ِ رسول ، مصّور ِ پاکستان ، علاّمہ محمد اقبال کا 85 واں یوم وِصال منا رہے ہیں ۔ علاّمہ اقبال نے مرنے والوں کے پسماندگان کی دل جُوئی کے لئے فرمایا تھا کہ ....
مرنے والے مرتے ہیں لیکن، فنا ہوتے نہیں!
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں !
....O....
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اِس ظُلمات میں !
جس طرح تارے چمکتے ہیں ،اندھیری رات میں !
....O....
1909ءمیں علاّمہ صاحب نے ”حضورِ رسالت مآب“ کے عنوان سے اپنی نظم میں رحمت اُللعالمِین کی خدمت میں عرض کِیا کہ ....
حضور دہر میں ، آسودگی نہیں مِلتی!
تلاش جِس کی ہے ، وہ زندگی ، نہیں ملتی!
.... O....
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ، ریاضِ ہستی میں!
وفا کی جِس میں ، ہو بُو، وہ کلی نہیں مِلتی!
.... O....
1913ءمیں علاّمہ صاحب نے اپنی نظم ” جوابِ شکوہ“ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے ( مسلمان) کو یہ پیغام دِیا کہ ....
کی محمد سے وفا تُو نے تو ، ہم تیرے ہیں!
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں!
....O....
نظم ” جوابِ شکوہ“ میں ہر مسلمان حکمران کے لئے پیغام تھا کہ ....
قوتِ عشق سے ، ہر پست کو بالا کردے!
دہر میں عشق محمد سے ، اُجالا کردے!
....O....
اپنے اِس شعر میں علاّمہ صاحب نے ہر مسلمان حکمران کو بتایا تھا کہ ” اسمِ محمد ہی انقلاب کا اسم اعظم ہے“۔ 
”خطبہ الہ آباد !“
1930ءمیں علامہ صاحب ؒنے اپنے خطبہ¿ الہ آباد میں کہا کہ ” برصغیر میں مسلمانوں کے لئے ایک جُداگانہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ اسلام کے لئے بھی انتہائی فائدہ بخش ہے ۔ ہندوستان کے لئے یوں کہ اندرونی توازن اقتدار کے باعث تحفظ امن پیدا ہوگا اور اسلام کے لئے یوں اُسے موقع ملے کہ وہ عرب ملوکیت سے نجات پائے اور اپنے قانون، تعلیم و ثقافت کو تحریک دے کر انہیں اپنی رُوح سے قریب لے آئے اور رُوحِ عصر سے ہم آہنگ کردے!“۔
28 مئی 1937ءکو علاّمہ اقبال نے قائداعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ” مَیں یہ جان کر خُوش ہُوا ہُوں کہ آپ اُن باتوں کو پیش نظررکھیں گے جو مَیں نے آپ کو ” آل انڈیا مسلم لیگ“ کے آئین و پروگرام کے بارے لکھی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حالات کی سنگینی سے پوری طرح واقف ہیں ، جہاں اُن کی زد "Muslim India" پر پڑتی ہے۔ مسلم لیگ کو بالآخر اِس امر کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا وہ ہندوستانی مسلمان کے محض اوپر کے طبقوں کی نمائندہ جماعت ہے؟ یا ابھی تک معقول وجوہ کی بِنا پر اِس میں دلچسپی نہیں لی؟۔ ذاتی طور پر میرا ایمان ہے کہ کوئی ایسی تنظیم مسلمانوں کی قسمت کو بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی جو ہمارے عوام کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی ؟ ‘ ‘۔
 علاّمہ اقبالؒ جب، وکالت کرتے تھے تو، اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوست / شاگرد وُکلاءمیں تقسیم کردیتے تھے ۔ معزز قارئین ! ۔” ریاستِ مدینہ“ میں پیغمبر انقلاب نے یہودیوں کے ساتھ ”میثاق مدینہ“ کرنے سے پہلے انصارِ مدینہ اور مہاجرین مکّہ میں مواخات ( بھائی چارہ) قائم کر دیا تھا، پھر انصارِ مدینہ نے اپنی آدھی جائیداد مہاجرین مکّہ میں تقسیم کرادِی تھی۔8 ہجری میں جنگ تبوک کے موقع پر حضرت عُمر بن الخطابؓ نے اپنے سارے مال و اسباب میں سے نصف حضور پُر نُور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی خدمت میں پیش کردِیا تھا لیکن ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ سارے کا سارا ۔ علاّمہ اقبال نے اپنی نظم صدیقؓ میں حضرت عُمر بن الخطابؓ کی طرف سے کہا کہ ....
کی عرض نصف مال ہے ، فرزندو زَن کا حق!
باقی جو ہے وہ مِلّت بیضا پہ ہے نثار!
....O....
سرورِ کائنات نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے پوچھا کہ ” آپ کیا لائے ؟“ ۔آپ نے کہا کہ ....
پروانے کو چراغ ہے ،بلبل کو پھول بس!
صدیقؓ کے لئے ہے ،خدا کا رسول بس!
....O....
تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ ” باب اُلعلم ،حضرت علی مرتضیٰؓ مسجد نبوی میں فرشِ زمین پر سو رہے تھے ، آپؓ کا جسم خاکِ مسجد میں آلودہ ہو گیا تھا کہ ” رسالت مآب تشریف لائے اور فرمایا!۔ ” قُم یا ابو تُراب!“۔(یعنی۔اے مٹی میں بھرے ہُوئے جسم والے اب اُٹھ بیٹھ!)۔ علاّمہ اقبال نے ابو تُرابؓ کی نسبت سے اپنے بارے کہا کہ....
یہ گُنہگار ، بُو ترابی ہے!
....O....
قرآنِ پاک کی ایک آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سرورِ کائنات سے کہا کہ ” لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ ) کِس قدر خرچ کریں؟ تو آپ انہیں بتا دیں کہ ،جتنا تمہارے خرچ سے بچ بجائے، وہ سب کا سب ! “ ۔ اِس موضوع پر علاّمہ اقبال نے کہا کہ ....
قُرآن میں ، ہو غوطہ زَن، اے مردِ مسلماں!
اللہ کرے، تجھ کو عطا، جدّتِ کردار!
....O....
جو حرفِ قُل العَفو، میں پوشیدہ ہے ،اب تک!
اِس دَور میں، شاید وہ حقیقت ہو نُمودار!
....O....
”طلوعِ اِسلام !“
معزز قارئین !۔ اِس سے قبل جب،جمہوریہ ترکیہ کے بانی ” اتا ترک “( ترکوں کے باپ ) غازی مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ترک افواج نے ، یونانیوں کو شکست فاش دے دیِ تو، علاّمہ اقبال نے اپنی نظم ” طلوع ِ اسلام “ میں لکھا کہ .... 
”دلیلِ صُبح روشن ہے ، ستاروں کی تنک تابی!
اُفق سے آفتاب اُبھرا، گیا دَورِ گراں خوابی!
....O....
عروُقِ مُردہ¿ مشرق میں ، خونِ زندگی دوڑا!
سمجھ سکتے نہیں ، اِس کو مگر سینا و فارابی! “
....O....
”ایک ہو ںمُسلم.... ! “ 
” بانگ ِ درا “ کی ایک نظم ” خضرِ راہ “ میں کہا کہ ....
” ایک ہوں مُسلم ، حرم کی پاسبانی ،کے لئے ! 
نِیل کے ساحل سے ،لے کر ،تا بخاکِ کاشغر !“
....O....
دراصل علاّمہ اقبالؒ نے شرق و غرب کے دو مشہور مقامات کا ذکر کرتے ہُوئے ساری دُنیا کے مسلمانوں سے حرم کی پاسبانی کے لئے متحد ہونے کی اپیل کی تھی۔
”O.I.C“
معزز قارئین ! 25 ستمبر 1969ءکو، ” اسلامی تعاون تنظیم“(O.I.C) "Organisation of Islamic Cooperation"۔ قائم ہُوئی تھی ، جس میں اب 57 مسلمان ممالک شامل ہیں ۔مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ” جنت اُلفردوس میں حرم کی پاسبانی کے بارے علاّمہ محمد اقبال کیا سوچ رہے ہوں گے ؟“ ۔

ای پیپر دی نیشن