کہتے ہیں کہ جب نرگس ہزارو ں سال تک اپنی بے نوری پے آنسو بہاتی ہے تب جا کر چمن میں کوئی دیدہ ور پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹرعلامہ محمداقبالؒ(1877ء۔ 1938ء) کی حیثیت بھی قوم کے لیے ایک دیدہ ور کی سی ہے جو نرگس کی ہزاروں سال کی خون آشامی کے بعد ہماری قوم کی آبیاری کے لیے نمودارہوا ۔ 1905ئ۔ 1908ءمیں مغربی تہذیب کے انداز دیکھ کر اقبال کی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ یہ دنیا دیکھ کر ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ان پر زندگی کی حقیقت اور بھی اچھی طرح واضح ہو گئی ۔ان کے مشاہدے اور تجربے کے در وا ہوئے ۔ انھوںنے مغرب و مشرق کا موازانہ کیا ۔ مغرب کی مادی ترقی کا جائزہ بھی لیااور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کو اپنی ملت پر قیاس کرنا چاہیے۔ غلامی کی زنجیریں ایک انقلاب کے ذریعے توڑ دینی چاہئیں۔ یورپ کے شب و روز، طرزِ زندگی اور بود و باش دیکھ کر اقبال کے ذہن میں ایک انقلاب پیدا ہوا ۔انھوںنے وطن واپسی پر برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی عروقِ مردہ میں خون زندگی دوڑانے کا بیڑا اٹھایا ۔ انھیں مسلمانوں کی پسماندگی اور غلامی کا ادراک ہوا ۔ انھوںنے مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نظم و نثر سے کام لیا۔
اس لیے انھوں نے قوم کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کوسہارا دینے کے لیے مسلمانوں میں فکری انقلاب لانے کا مصمم ارادہ کیا۔ انھوںنے اپنی شاعری کو انقلابی سانچے میں ڈھال کر مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ یاد دلائی ۔ ان کے آباﺅ اجداد کے علمی و قومی ورثے سے متعارف کروایا۔ خوابیدہ قوم کو دعوتِ عمل دی۔ اقبال کی شاعری کا مرکزی نکتہ بھی حرکت و عمل ہے ۔ خودی کے تناظر میں پیامِ انقلاب کے خوگر اقبال نے جو پیغام دیا وہ پُر اثر ثابت ہوا۔ انھوںنے فرزندان اسلام کو غفلت ،جہالت،تساہل پسندی، احساس کمتری کے عمیق گڑھوں سے نکال کر ان کے جواہرِ مخفی بیدار کرنے کی کوشش کی۔ انھوںنے نوجوانوں کو شاہین صفت بن کر محوِ پرواز رہنے کی دعوت دی۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں انقلابی نظمیں پیش کر کے مردانِ حق کو پیغامِ بیداری دیا۔ اقبال نوجوان کو مستقبل کا امین سمجھتے تھے، اس لیے وہ مسلم نوجوان کو خطاب کرتے ہوئے اپنی تاریخ دہرانے کا پیغام دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے، چند اشعار:
کبھی اے نوجواں مسلم، تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاﺅں میں تاجِ سرِ دارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
ایک اور جگہ اقبال نوجوان سے مخاطب ہیں:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
قوموں کی زندگی میں انقلاب اس وقت برپا ہوتاہے جب وہ اپنے آنے والے کل کو آج سے بہتر تصور کریں۔ اقبال زندگی کو ایک نقطے پر مرکوز دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے ان کا پیغام تازہ بستیاں آباد کرنے کا ہے ۔ انقلاب کا آغاز تعمیری سوچ سے ہوتاہے۔ عمل کا راستہ اچھی سوچ کا ثمر ہے ۔ اقبال ہمیشہ ایک مفکر کی طرح سوچتے تھے اور مجاہد کی طرح عمل کرتے تھے۔ ان کے مقالات ، تشکیل جدید الہیاتِ اسلامیہ اور انقلاب سے بھرپور نظمیں ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تبدیلی کا باعث ہو سکتی ہیں۔
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
علامہ اقبال مغرب پرستی اور مغربی تہذیب کی نقالی کے سخت خلاف تھے۔ اقبال نے مسلمانوں کواس تہذیب کے کڑوے پھلوں کی تلخی سے آگاہ کیا اور انھیں تلقین کی کہ وہ اپنے آپ کو اس بے حیا تہذیب کے طلسم سے دور رکھیں۔ اگر وہ سیاست فرنگ کی عیاریوں سے آزاد ہو کر آزاد ذہن کے ساتھ نہ سوچیں گے تو کبھی بھی غلامی اور پستی کے گڑھے سے نہ نکل سکیں گے۔ وہ لندن سے اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام ایک پیغام میں کہتے ہیں:
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر!
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر!
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر!
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
اقبال نے چشمِ حقیقت سے دیکھا کہ غیر مسلم قوتیں اپنی ریشہ دوانیوں سے مسلمانوں کو آپس میں منتشر کر کے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کر چکی ہیں۔ ترکی میں غیر مسلم مداخلت کا اقبال کو گہرا صدمہ ہوا۔ انھوںنے مسلم اتحاد کے لیے انقلابی پیغامات دیے۔ نسلی ، علاقائی، لسانی اور صوبائی تعصبات کے چنگل سے نکل کر اسلامی جھنڈے تلے جمع ہونے کی دعوت دی۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل ے لے کر تابخاکِ کاشغر
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی، نہ تورانی، نہ افغانی
اقبال کی شاعری قومی تناظر میں ایک نئی آواز تھی۔ ایک انقلابی پیغام اقبال کے اشعار میں ایک آفاقی فکر ، ایک جوش ، ایک ولولہ اور آگے بڑھنے کی نوید ۔ ہندوستان میں جاری غیر ملکی تسلط ان کے لیے ایک مرض سے کم نہ تھا۔ اس لیے اقبال غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزاد اور خود مختار مملکت کا خاکہ پیش کرتے رہے۔
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
اقبال چاہتے تھے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک لڑی کے موتی بن جائیں وہ چاہتے تھے کہ عربی ہو یا ایرانی، ہندی یا افغانی، تمام مسلمان ایک قوم بن جائیں اس لیے ان کا یہ پیغام قابلِ توجہ ہے:
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اسے شرمندہ¿ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
انقلاب کے لیے جوشِ جنوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لہو گرم رکھنے کا جذبہ رکھنے والی قوم کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ بے سروسامانی اور تعداد کی کمی کے باوجود مسلمانوں نے فتوحات کے پرچم بلند کیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوت ہار جاتی ہے اور جذبے فتح یاب رہتے ہیں۔
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زورِ حیدرؓ، فقرِ بوذرؓ، صدقِ سلمانیؓ!
اقبال کے انقلابی نظریے کے تناظر میں فرد اپنی دنیا آپ ہے۔ خطرات اسے تجربات عطا کرتے ہیں۔ کیوںکہ تجربہ میرا استاد ہے اور ٹھوکریں میری تعلیم۔ خطرات سے الجھنے والے منزل پا لیتے ہیں۔ فرض کو ملت میں گم ہو کر سیلِ رواں کا روپ دھار لینا چاہیے۔ فرد کی سوچ کا دھاراانقلابی شعور سے پھوٹتا ہے ۔ جب کہ کوئی قوم ایک قوت نہ بن جائے وہ خودی کی تکمیل نہیں کر سکتی۔
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
اقبال فرد اور ملت کے تعلق کو یوں بیان کرتے ہیں:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
انھوںنے اپنی نظم ’شکوہ‘ اور’جوابِ شکوہ‘ میں مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ یاد دلاتے ہوئے انھیں قوتِ عمل کے معجزوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی راہ میں فرقہ بندی کو اقبال سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ایک خدا ، ایک خاتم النبیین ﷺ اور ایک قرآن کے حامل قوم کو نظریہ¿ اسلام پر متحد ہوجانا چاہیے۔ وہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں!
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اقبال کی قومی شاعری کا نکتہ¿ آخر اسلامی نظریہ حیات کی ترویج ہے۔ انھوں نے اپنے انقلابی نظریے کے زور سے اسلامی اقتدار کو زندہ کیا ۔ان کے نزدیک روحانیت کا فروغ اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کرتاہے۔ مضبوط قومی معیشت کے لیے وہ محنت کرنے اور رزق حلال کمانے پر زور دیتے ہیں۔ اگر افراد قوت عمل سے محروم ہو جائیں تو ان کے ضمیر میں رہبانیت آ جاتی ہے۔ صحیح اسلامی نظریہ ¿حیات ان دونوں کے امتزاج پر زور دیتا ہے۔ اقبال مسلم قوم کو بالعموم اور نوجوانوں کو بالخصوص محوِ پرواز دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اس طرح وہ نوجوانوں کو ترقی کا راستہ دکھاتے ہوئے انھیں ستاروں پر کمند ڈالنے کی تلقین کرتے ہیں کہ
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ہم نے اقبال کے نظریہ¿ انقلاب کو کتابوں میں مقید کر دیا ہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب سے ترقی کا راستہ ہموار ہوتاہے۔ انقلابی سوچ کے بغیر زندگی ایک مرکز پر ٹھہر جاتی ہے ۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب