علامہ اقبال کا تصور خودی
حکیم راحت نسیم سوہدروی
علامہ اقبال ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے -فلسفی ، عظیم مفکر، حکیم الامت اور دور حاضر کے باکمال شاعر ہیں۔ایک ایسے شاعر جو مردان حق شناس میں سے تھے جو اقوام کے عزائم وافکار میں انقلاب برپا کرنے کے لئے شعر کا سہارا لیتے ہیں ان کا پیغام ہمہ گیر انسانیت اور خاص کر ملت اسلامیہ کی نشاستہ ثانیہ سے تعلق رکھتا ہے ان کا سارا کلام ارتقائ منازل طے کرتے ہوے اپنے مقام اصل کو پہنچا جو حقائق و معارف کا ایسا گنجینہ ہے جس پر جتنا غور وفکر کیاجائے نئے سے نئے رائیں کھلتی جاہیں گی علامہ اقبال صرف شاعری نہ کرتے تھے بلکہ بامقصد شاعری کرتے تھے جو کہ ایک پیغام تھی وہ ایک مرد مومن کی طرح ملت کی سربلندی اور سرفرازی کے لئے پکارتے رہے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ ملت اپنے حقیقی مقصد سے آشنا ہوکر پوری انسانیت کے لئے رحمت و شفقت بن جاے چنانچہ فرماتے ہیں
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کھبی سوز ساز رومی کھبی پیچ و تاب رازی
علامہ اقبال کے تمام فکر و فلسفہ کا نچوڑ مسلمانوں کو درس خودی ہے یعنی انسان انسان کو پہچانے اور خود کو پہچانے .... یہی وجہ ہے کہ ان کا مرکزی نقطہ خودی ہے اور یہ اقبالیات کا مرکزی نقطہ اور اس کا حاصل بھی ہے۔ علامہ اقبال نے مخصوص ترنگ میں آکر درس خودی نہیں دیا بلکہ قرآن کا وسیع گہرائی سے عمیق مطالعہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلسفہ خودی قرآن کے ارشادات پر منبی ہے۔ اقبال کے ذہنی ارتقا کا مطالعہ کیا جاے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اقبال نے خودی کو دلائل سے سمجھا ، پرکھا۔ ان کا تصور بنیادی طور پر اسلام سے ماخوذ ہے دوسروں کو سمجھنے کے لئے شاعری اور فلسفہ دونوں سے کام لیا۔ مثنوی اسرار ورموز کے پہلے ایڈیشن میں جو اردو دیباچہ ہے جس کا انگریزی ترجمہ نکلسن نے کیا تھا نکلسن کے نام اقبال نے اپنے خط میں اسرارورموز کا ذکر کیا ہے اور واضح کیا کہ یہ اسلام سے ماخوذ ہے علامہ فرماتے ہیں
زندگانی ہے صدف قطرہ نیساں ہے خودی
وہ حرف کیا جو قطرے کو گہر
نہ کرسکے
حیات وموت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہےخودی کی نگاہ کا مقصود
اقبال خودی پر بحث کرتے ہوے مسلمان کو ایک فرد اور پھر اسے ملت اسلامیہ کے پس منظر میں دیکھا ہے - خودی کی عالمانہ تاریخ خواہ کچھ بھی ہو مگر اس کا سیدھا سادہ مفہوم خوداری اور خوداعتمادی ہے چنانچہ فرماتے ہیں
یہ موج کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے رازداں حیات
خودی کیا ہے بیداری کائنات
زمانے کے دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئ
ازل سے کشمکش میں اسیر
ہوءخاک آدم میں صورت پذیر
ان کے ہاں اثبات خودی کا جذبہ وروح ہی اصل زندگی ہے اور خودی مثل سمندر ہے اس کی وسعتیں انسان کی ہمت کے برابر ہیں اس حوالے سے فرماتے ہیں
خودی وہ بحر جس کا کوءکنارہ نہیں
تو اب جواسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
بعض لوگ انفرادیت کو خودی کا نام دیتے ہیں جو سراسر غلط ہےانفرادیت تو شجر وحجر میں موجود ہے مگر روح عنقا ہے اس لئے خودی سے محروم ہے گویا خودی عبارت ہے روحانیت سے جو سعی وجہد کے بغیر ممکن نہیں اسی خودی کی خفاظت زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے فرماتے ہیں
غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاہد کسی حرم کا ہو تو بھی آستانہ
خودی کا مقصد اصلی روح پر جسم کا غلبہ حاصل کرنا ہے گویا فقط زندگی خودی کا سب سے بڑا مقصد ہے - خودی کا اسلامی تصور یہ ہے کہ فرد مخلوق ہے جس کی ذات میں حکیم المطلق نے بے انتہا امکانات پوشیدہ رکھے ہیں جو سب کے سب زندگی میں ظاہر نہیں ہوے خودی کے مفہوم کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب زندگی کے تضاد و تناقض کو نہ سمجھا جاے ان حقیقتوں کو جاننا خودی کی منزل اولین ہے اس حوالے سے فرماتے ہیں
خودی کیا ہے یہ منزل اولین
مسافر یہ تیرا نشمین نہیں
تیری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
شعور ذات خودی کی اصل پہچان ہے خودی کا استحکام زندگی کا واحد معیار ہے- پانی کا قطرہ جب خودی سے آشنا ہوتا ہے تو پھر گوہر بن جاتا ہے - سبزہ جب اپنے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے تو سینہ گیتی چیر دیتا ہے گویا تب وتاب جاودانی سے فرشتوں تک رسائی ممکن ہے اسی خودی سے سر شار اقبال فرماتے ہیں
حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت نہ برپا کردے
اقبال کا خیال ہے کہ بلندی خودی میں ڈوبنے سے حاصل ہوتی ہے چنانچہ فرماتے ہیں
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام وسحر سے بے قراں ہو پایا
خودی میں ڈوبنا اور پھر ابھرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے
ضرب کلیم کے سرورق پر اس نقطہ کو اس طرح واضح کیا ہے
ہزار چشمے تیری سنگ راہ میں پھوٹے
خودی میں ڈوب کر ضرب کلیم پیدا کر
علامہ اقبال حرکت وجود کی اضافیت کا راز پا گئے تھے وہ یہ بھی جان گئے تھے کہ خودی کی قوت تسخیر کے آگے بلندی وافلاک ہیچ ہے
خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی مملکت صبح وشام سے آگاہ
خودی کی بلندی وپستی معیار شر وخیر ہے
نمود جس کی فراز خودی سے ہو وہ
جو نشیب میں پیدا قبیح و نا محبوب
خودی کے ساتھ انہوں نے بے خودی کا فلسفہ بھی پیش کیا جس کا مقصد ملت کو ہیت اجتماعیہ کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے ان کے نزدیک فرد کی کوءحقیقت نہیں جب کہ وہ افراد کی اجتماعی قوت کا روپ نہ دھار لے۔ گویا افراد کی اجتماعی قوت قسمت ملت کو بدل سکتی ہے اس فرد کو جو خودی سے سر شار ہے ملت کی اجتماعیت میں ضم نہ ہوجاے تواس طرح تقدیر قوم بدل سکتی ہے ایساچھوٹا سا گروہ بھی انقلاب لا سکتا ہے کہ دنیا حیرت زدہ رہ جاتی ہے طارق بن زیاد کے ساتھ مٹھی بھر افراد تھے جہنوں نے اجتماعیت کا روپ اختیار کرکے اندلس میں اسلامیوں کا پرچم گاڑ دیا تھا اور صدیوں مسلمان وہاں نعرہ انا وعجز لگاتے رہے مگر جو ملت اپنے مقام اصل سے دور ہوءاجتماعیت کے ساتھ فرد نے بھی اپنی انفرادی خودی ختم کردی تو وہاں اسلام کا کوءنام لیوا نہ رھا طارق کے اس عزم کو اقبال اس طرح بیان کرتے ہیں
طارق چھوبہ کنارہ اندلس مفتہ موخت
گفتندکارتوبا نگاہ فرد مطااست
مگر اس مرد مومن نے کہا کہ
ہر ملک ملک ماست کے ملک خدا است
گویا افراد کی باہمی کشمکش اجتماعیت کی دوری قوموں کی موت ہے خودی کی اصل غائیت جماعت کا موثر نظم ونسق اور ربط کے بغیر ممکن نہیں ہے ملت سے وابستگی ہی ایسا ذریعہ ہے کہ جس سے خزاں رسیدہ چمن میں بہار آسکتی ہے اس حوالے سے کہتے ہیں کہ
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹا
ممکن نہیں ہری ہو سیماب بہار سے
لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں اسے برگ وبار سے
جو لقمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور
رخصت ہوے تیرے شجر سایہ دار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
افراد کے مٹنے سے اقوام نہیں مٹتی اقوام کی زندگی افراد سے زیادہ غیر محدود ہوتی ہے اسی خیال کو اقبال نے رموز خودی میں پیش کیا ہے اور یہ اسلامی تصور ہے افراد ملت کی کشمکش اقوام کے لئے موت ہے جو ملت اس راہ پر گامزن ہوجاے وہ جیتی ہوئی بازی ہار جاتی ہے کیا اس میں شبہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں سلطنت مغلیہ کے زوال کا سبب ملت کی باہمی کشمکش اور ہوس اقتدار نہ تھی جونہی ملت کی مرکزیت ختم ہوئ اور افتراق کی راہ پائ تو زوال مقدر بنا۔ اقبال نے ملت کے اس مرض کا علاج فلسفہ خودی تجویز کیا ان کے نزدیک ملت کا مقام اصل یہی ہے کہ افراد ملت کو ایرانی ترکی اور تاتاری کا امتیاز نہیں کرنا چاہیے اور اجتماعیت ہی کامیابی کی راہ ہے
پروفیسر نکلسن نے جب اسرار خودی کا ترجمہ کیا اور بعض مقامات کی وضاحت چاہی تو اقبال نے خودی کی ایسی شگفتہ اور مربوط وضاحت کی جو آن کے کلام میں نظر نہیں آتی اقبال نے اپنے کلام میں خودی کو عزیز ترین متاع قدر کا معیار اور خیرو شر کی کسوٹی قرار دیا ، علامہ اقبال کے نزدیک عشق اللہ تعالیٰ اور اس کے بناے ہوے ضابطے پر ایمان ہے اور خودی سے مراد اس ایمان پر عمل کرنا ہے بہترین زندگی اسی طرح بسر کی جاسکتی ہے کہ اللہ کے احکامات پر ایمان اور قرآن حکیم پر عمل ہے اس طرح انسانیت کی فلاح ممکن ہے اور اور اسی ٹھوس عمل کا نام خودی ہے