ہمارا پاکستان ڈاکٹرائن قومی سوچ!

ہمارا پاکستان ڈاکٹرائن قومی سوچ!
کنکریاں۔ کاشف مرزا

پاکستان کی پارلیمنٹ میں سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہاکہ طاقت کا محور عوام ہیں، آئین کہتا ہے اختیارعوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔ہمیں نئے اورپرانے پاکستان کی بحث چھوڑکرہمارا پاکستان کی بات کرنی چاہیے،عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں۔ پاک فوج ملکی ترقی وکامیابی کے سفر میں انکا بھرپور ساتھ دے گی۔بعدازاں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 257 ویں کور کمانڈرکانفرنس میں ملکی داخلی و سلامتی کی صورتحال، اندرونی اورخطے کے سکیورٹی امور کا جائزہ لیا گیا۔عسکری قیادت درپیش چیلنجزسے مکمل طور پر آگاہ ہے اورعوام کے تعاون سے اپنی آئینی ذمے داریاں نبھانے کا عزم کرتی ہے۔دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے حکومت نے دہشتگردوں کیخلاف انسداد دہشتگردی کی مہم کی منظوری دی،مسلح افواج اندرونی وبیرونی خطرات کا جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے اورمغربی سرحدی علاقوں میں خفیہ آپریشنز کر رہی ہیں۔پاکستان میں موجودہ غیر یقینی سیاسی صورتحال،حکومت اور سپریم کورٹ کے مابین پنجاب میں الیکشن کی تاریخ اور عدالتی اصلاحات کو لے کر جاری کشمکش کے دوران، آرمی چیف کے اس بیان کو خاصی اہمیت سے دیکھا جا رہا ہے جس میں ہر طبقہ اور سیاسی جماعت اپنی مرضی کے معنی تلاش کرتی نظر آئیں۔آرمی چیف کے آئین اورعوام کے نمائندوں کی مقتدر حیثیت کے بارے میں خیالات درست اور خوش آئند ہیں، انھوں نے پہلی تقریر میں بھی بڑے معاملات پر گفتگو اور اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ ضرورت ہے کہ عوام کو مقتدر اعلیٰ مان کر آئین کےتحت عوامی فیصلوں کا احترام کیا جائے۔ بلاشبہ یہ ہمارا پاکستان ہے، عوام آئین وقانون کی حکمرانی اورسماجی بہبود کے نظام کے تحت پروان چڑھنے والا ہماراپاکستان چاہتی ہے۔آرمی چیف کا پیغام بہت واضح ہے کہ حکومت و پارلیمان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اصولی طور پرفوج کوحکومتِ وقت کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔موجودہ صورتحال میں بظاھرجوڈیشری پی ٹی آئی کے ساتھ جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے۔آرمی چیف کے بیان میں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کوچھوڑ کر ہمارے پاکستان کی بات کرنے میں انھوں نے تنازعہ کے حل کی بات کی ہے۔پرانے پاکستان کا مطلب ہےپرانی سیاسی پارٹیاں اور پی ٹی آئی اپنے آپ کو نیا پاکستان کہتی ہے اور یہی پاکستان میں سیاسی تنازعہ کی وجہ بن گئی ہے جس نے ملکی اداروں کو بھی ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔آرمی چیف اس حصے میں کامن گراو¿نڈ اور مل کر مستقبل کیلیے اکٹھے ہونے کی بات کی ہے اور اس میں انھوں نے کسی کی حمایت نہیں کی، بلکہ ایک بار پھر عزم دہرایا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج غیرجانبدار ہے اور یہ بیان کسی کی حمایت یا مخالفت میں نہیں ہے۔ اجلاس میں آرمی چیف نے 1973 کے آئین کے نفاذ کے 50 سال مکمل ہونے پر ارکان کو مبارکباداور 1973ءکا آئین بنانے والوں کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سینٹر آف گریویٹی پاکستان کے عوام ہیں۔ تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو آرمی چیف نے بہت عمدہ اور مثبت بات کی ہے۔ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے اور ملک کا آئین فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔اگر وہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کرکہہ رہے ہیں کہ عوام کا منتخب ہاو¿س جو بھی فیصلہ کرے گا ہم اس پر عملدرآمد کریں گے، عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں، پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں انکابھرپور ساتھ دے گی، یقیننا یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔
پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جدوجہد میں 80 ہزار سے زائد قربانیاں دی ہیں، ہمارے شہدا کی عظیم قربانیوں سے امن بحال ہوا تھا، اس وقت پاکستان میں الحمد للّٰہ کوئی نو گو ایریا نہیں رہا، دہشتگردوں کیلیے ریاست کی رٹ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، دہشتگردوں سے مذاکرات کے غلط فیصلہ کا خمیازہ مزید گروہ بندی کی صورت میں سامنے آیا، ملک میں دائمی قیام امن کیلئے سیکیورٹی فورسز مستعد ہیں، اس سلسلے میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری ہیں۔ان حالات میں آرمی چیف کے سامنے اہم ترین چیلنجزہیں۔پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے اور اسکا آئین فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا،عسکری قیادت نے بڑےغور وخوض کےبعد اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ ادارہ آئندہ سیاسی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔فوج کے اعلیٰ حکام کا سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنانا اوراسکو برقرار رکھنے کافیصلہ ہے۔ اس پر عملدرآمد کا فوج اعادہ کر رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فوج سنگین سیاسی عدم استحکام میں مکمل طور پر سیاست سے الگ رہ سکتی ہے؟ تبدیلی ایک بتدریج عمل ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے نئے آرمی چیف کو یقینی بنانا ہو گا کہ انکی قیادت میں فوج کا ادارہ اس عہد پر قائم رہے جو اس نے کیا ہے۔فوج کے خلاف چیئرمین عمران خان کی حالیہ بیان بازی اور موجودہ حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پی ڈی ایم کے خلاف انکی ایک سخت مہم کی وجہ سے سیاسی تقسیم بھی اس وقت عروج پر ہے۔عوام ناراض اور رائے عامہ دو انتہاوں پر بٹی ہوئی ہے، بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات نے صورتحال کو اور گھمبیر کر دیا ہے۔ عمران خان نے فوج پر جس طرح سے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تنقید کی ہے اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی، جس وجہ سے ایک بحرانی کیفیت ہے۔ فوج کو اس بحران سے نکالنا چیف آف آرمی سٹاف کیلیے بڑا چیلنج ہے۔عمران خان کامطالبہ قبل از وقت اور شفاف انتخابات ہیں اور فوج کے سیاست سے دور رہنے کے عہد کے باوجود اگر عمران دباو¿ بڑھانے میں کامیاب ہوگئے تو ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کیلیے آرمی چیف موجودہ حکومت کو جلد انتخابات کی ایڈوائس دیتے ہیں، لیکن ادارے کو کسی اور تنازع میں لائے بغیر اس صورتحال سے محفوظ طریقے سے نکلنا اور توازن برقرار رکھنا بڑا چیلنج ہو گا۔پاکستانی فوج اپنی مو¿ثر امیج بلڈنگ کیلیے جانی جاتی ہے تاہم پچھلے چند ماہ میں سوشل میڈیا پر فوج مخالف مہم نے ادارے کے امیج کو کافی داغدار کیاہے۔موجودہ حالات میں فوج کے اندربے چینی کو ختم کرنا، ہم آہنگی کو بہتر بنانا اور فوج کے مورال اور امیج کی بحالی کافی اہم ہوگی۔مسلسل تنقید ادارے کواندر سے نقصان پہنچا رہی ہے اور چونکہ فوج صرف اپنے لوگوں کی عقیدت اور احترام پر ہی پھلتی پھولتی ہے، اسلیے اس وقت ادارے کے اندراس پریشانی کو ختم کرنا فوجی سربراہ کی ترجیح ہے۔جنرل عاصم منیر کیلیے مسلسل بدلتے ہوئے خطرات کے ماحول میں پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانابڑا چیلنج ہے۔پہلے پاکستان کی سکیورٹی کا محور صرف انڈیا تھا تاہم اب افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد بھی کافی حساس ہے۔ افغانستان پر طالبان کی حکومت کے بعدپاکستان میں تحریک طالبان پاکستان متحرک ہوئی ہے اور اسکے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ پاکستان اس وقت کئی اندرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے اور ملک پرمذہبی انتہاپسندی کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اورایسی صورت میں سرحدوں کے اندر شدت پسندی سے نمٹنا بھی آرمی چیف کی اہم ترجیح ہے۔ملکی داخلی و سلامتی کی صورتحال پرعسکری قیادت درپیش چیلنجز سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور عوام کے تعاون سے اپنی آئینی ذمے داریاں نبھانے کا عزم کرتی ہےاور سکیورٹی فورسز مغربی سرحدی علاقوں میں خفیہ آپریشنز کر رہی ہیں۔ لہذادہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے قوم اور حکومت کو مشترکہ مو¿قف اپنانے کی ضرورت ہے۔پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کایہ واضح ودو ٹوک اعلان کہ طاقت واختیار کا محور عوام ہیں اور آئین کی ر±و سے یہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا،عسکری قیادت کی جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی کی آئینی پوزیشن کو پوری کشادہ دلی کے ساتھ قبول کیے جانے کا خوش آئند اقدام ہے جس پر عمل سےاِن شاءاللہ پاکستان جلد ہی مستحکم اور ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کی صف میں ممتاز مقام حاصل کر سکے گا۔جنرل عاصم منیر نے مزیدواضح کیاکہ دہشتگردوں کیلیے ریاست کی رٹ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں انکا بھرپور ساتھ دے گی۔ انہوں نے قوم کو بالکل درست طور پر مشورہ دیا کہ ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر اب ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔یہی سوچ اور یہی جذبہ آج ہماری اولین ضرورت ہے۔ ملک کی سلامتی اور ترقی واستحکام کا راستہ اسکے سوا کوئی نہیں کہ ریاستی ادارےآئینی حدود میں قومی مقاصد و اہداف کے حصول میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں،بےشک نیا یا پرانا نہیں بلکہ ہمارا پاکستان ہماری توجہ کا منتظر ہے اور یہی سوچ ہمیں ازسرنو ایک متحد اور منظم قوم بناسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن