ڈاکٹر سید عبداللہ
نعت کا فن ہمیشہ ہی سر سبز رہا، ثنا خوانان جمال و کمال نبی سدا سدا شمع روئے جہاں تاب رسول سے عقیدت کے دیئے جلاتے رہے۔ یہ مضمون سدا بہار ہے، اس پر خزاں نہیں آتی، اسے صرصر ایام افسردہ نہیں کر سکتی۔ یہ وہ گل ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔لیکن اب اس دور میں کہ دلوں کی کھیتیاں جلد جلد خشک اور ویران ہو جاتی ہیں، سیرابی و شادابی کی ضرورت بھی بڑھتی جاتی ہے اور جتنی جتنی یہ ضرورت بڑھتی جاتی ہے، اتنی اتنی نعت.... یعنی مدح رسول کا جذبہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ نعت کا گلشن آج کل خوب پھل پھول رہا ہے۔
اسی گلشن کا ایک بلبل خوش نوا حفیظ تائب ہے، جس کی نعت، اب اپنے زمانے پر اپنا نقش قائم کر چکی ہے۔ لہٰذا تعریف و تعارف کی کوئی سعی، اس کے کمال فن کی تنقیص کے برابر ہوگی۔
یہ تو ظاہر ہے کہ ہر صنف کی طرح، نعت میں بھی ہر شاعر یا نعت گو کی ایک انفرادی آواز ہوتی ہے، جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ حفیظ تائب کی نعت کی بھی ایک انفرادی آواز ہے، جو عصر کے دوسرے نعت گوﺅں سے اسے ممتاز کرتی ہے۔
یہ آواز ہے.... وفور شوق عقیدت.... وہ لہجہ جو ادب و لحاظ کا پاسدار ہے۔ حفیظ تائب کی نعت کو پڑھ کر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے وصف کے ساتھ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہے، جو حضور کے روبرو کھڑا ہے، اس کی نگاہیں جھکی ہوئی ہیں اور اس کی آواز احترام کی وجہ سے دھیمی ہے، مگر نہ ایسی کہ سنائی ہی نہ دے اور نہ ایسی اونچی کہ سوئے ادب گستاخی کا گمان گزرے۔ شوق ہے کہ اُمڈ آتا ہے اور ادب ہے کہ سمٹا جا رہا ہے۔
حفیظ تائب کی ہر نعت میں یہ کیفیت موجود رہتی ہے، مگر اس کی نعت صرف آواز اور لہجہ ہی نہیں، اس میں حرف مطلب بھی ہے، یعنی وصف حسن بھی ہے، مگر غزل کا سا نہیں، اظہار شوق بھی ہے مگر گیت کا سا نہیں، توصیف بھی ہے، مگر قصیدے کے مانند نہیں، اس میں التجا و تمنا بھی ہے مگر گدایانہ نہیں۔ اس میں طلب و تقاضا بھی ہے مگر زرومال اور متاع قلیل دنیاکا نہیں، انسانیت کے لیے چارہ جوئی کا حفیظ تائب اپنی نعت کا تجزیہ یوں کرتے ہیں:
مدح نبی وہ چشمہ نور و حضور ہے
جس سے ہیں تابناک مرے خدوخال فن
شیرازہ¿ حیات ہے وابستہ حضور
پروردہ نگاہ کرم اعتدال فن
حفیظ تائب حضور کے حضور میں جب پیش ہوتے ہیں تو آج کے انسان اور آج کے مسلمان کی حاجتیں لے کر جاتے ہیں۔ وہ آج کے انسان اور آج کے مسلمان کی زبان میں آج کے تصورات کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ مثلاً
شہِ دیں کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے تفرقے
نہ رہا تفاخرِ منصبی نہ رعونت نسبی رہی
حفیظ تائب ایک اُمتی کی حیثیت سے اُمت کی مشکلات پیش کرتے ہیں:
اپنی اُمت کے برہنہ سر پہ رکھ شفقت کا ہاتھ
پونچھ دے انسانیت کی چشم تر خیرالبشر
موجودہ معاشرے کے اخلاقی زوال کی طرف متوجہ کرکے حضور سے چارہ گری چاہتے ہیں۔
اخلاق کا یہ کساد مولا
انصاف کا یہ زوال آقا
جاری ہے زیست کی رگوں میں
زہر زردسیم و مال آقا
دیکھا تھا نہ چشم آدمی نے
اخلاص کا ایسا کال آقا
امت کو عروج پھر عطا ہو
غم سے ہے بہت نڈھال آقا
اتباع شریعت کے دعوے تو ہیں
روح شیدائے تقلید افرنگ ہے
روح ویران ہے، آنکھ حیران ہے،
ایک بحران تھا، ایک بحران ہے
گلشنوں، شہروں، قریوں پہ ہے پرفشاں ایک گمبھیر افسردگی یا نبی
ان سب باتوں کے باوجود حفیظ تائب نے اپنی نعت کو مادی اغراض کے شوائب سے پاک رکھنے کی کوشش کی ہے.... اور اس روش سے بچے ہیں جو مادیت نواز شاعروں کے یہاں آج کل عام ہے، کہ نعت جیسے پاک و صاف اور منزہ و مصفا مضمون کو بھی مادی نظریات و تصورات کی تبلیغ کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ ایسی نعتیں دراصل، مھسن انسانیت حضور سے محبت سے زیادہ اپنے نظریے سے محبت کا اظہار ہو اکرتی ہیں۔
حفیظ تائب کی عقیدت، بے لوث، بے غرض ہر مادی مدعا سے پاک....، ایک سادہ انسان کے اس عشق سے مشابہت رکھتی ہے جو محبت برائے محبت کرتا ہو اور اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اسے کچھ مانگنا بھی ہے۔
حفیظ تائب کی نعتیں، ہر دوسرے نعت گو سے الگ پہچانی جاتی ہیں۔ خلوص، ادب، دم بخود احترام، آنکھ میں نم، دل میں شوق اور شوق میںدبا ہوا غم۔
اسی لیے زبان و بیان میں کمال درجے کی شستگی اور شائستگی، سکون و سکوت اور برجستگی کے باوجود متانت جو لازمہ ادب ہے.... ان کے ہاںآرائش کا یہ رنگ اور زیبائش کا یہ ڈھنگ صلوا علیہ والہ میں ہر جگہ جلوہ افزا ہے۔