ظفراللہ خان
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔(صحیح مسلم۔ رقم:266)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو۔ وہ شخص دوزخ میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان ہو۔(سنن ابن ماجہ۔ رقم:4173)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرامایا: اللہ سبحانہ، و تعالیٰ فرماتا ہے: تکبر میری چادر ہے اور بڑائی میرا راز۔ پھر جو کئی ان دونوں میں سے کسی کے لیے مجھ سے جھگڑے میں اس کو جہنم میں ڈالوں گا۔(سنن ابن ماجہ۔ رقم:4174)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے کو لٹکائے گا۔ قیامت کے دن خداوند تعالیٰ اس پر رحمت کی نظر سے نہ دیکھے گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: میرے کپڑے کا ایک کونہ خود بخود لٹک جاتا ہے، ہاں اگر میں اس کی نگہداشت رکھوں تو وہ نہ لٹکے۔ رسول اللہ نے فرمایا: بے شک تم تکبر نہیں کرتے۔(صحیح بخاری۔ رقم:3522)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: جنت اور دوزخ آپس میں جھگڑا کریں گی۔ دوزخ کہے گی کہ میں متکبر اور ظالم لوگوں کے لیے مخصوص کر دی گئی ہوں، اور جنت کہے گی کہ مجھ کو کیا ہوگیا ہے کہ مجھ میں صرف کمزور اور حقیر لوگ داخل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو میری رحمت ہے، میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا رحمت سے نوازوں گا۔ اور جہنم سے فرمائے گا کہ تو عذاب ہے، میں تیرے ذریعے سے جن بندوں کو چاہوں گا عذاب دوں گا(صحیح بخاری۔ رقم:4668)
حضرت ابوہریہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے اور نہ ہی انہیںپاک و صاف کریں گے۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے:1۔ بوڑھا زانی2۔ جھوٹا بادشاہ3۔ مفلس تکبر کرنے والا۔(صحیح مسلم۔ رقم:296)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ رب العزت آسمانوں کو لپیٹ لے گا، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں، زور والے(جابر) بادشاہ کہاں ہیں؟ تکبر والے کہاں ہیں؟ پھر زمینوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں، زور والے بادشاہ کہاں ہیں؟ تکبر والے کہاں ہیں؟(صحیح مسلم۔ رقم:7041)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے ارشاد فرمایا: علامات قیامت یہ ہیں کہ لوگ فخر کریں گے مسجدوں میں(مطلب یہ ہے کہ لوگ تکبر کی نیت سے ایک دوسرے سے بڑھ کر عمدہ عمدہ مساجد تعمیر کریں گے اور ایک دوسرے کی تقلید میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی نیت سے مساجد تعمیر کریں گے اور ان کا مقصد رضائے الٰہی نہ ہوگا)۔(سنن نسائی۔ رقم:693)
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص تکبر، قرض اور غلول(خیانت) سے بری ہو کر فوت ہو، وہ جنت میں داخل ہوا۔(جامع ترمذی۔ رقم:1637)
حضرت زید خشعمیؓ کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: کتنا برا ہے وہ بندہ جس نے اپنے آپ کواچھا سمجھا اور تکبر کیا اور بلند و بالا ذات کو بھول گیا۔ جس نے سرکشی و نافرمانی کی اور اپنی ابتدا اور انتہا کو بھول گیا، جس نے دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنایا جس نے خواہشات کو راہنما بنا لیا، جسے اس کی خواہشات گمراہ کر دیتی ہیں، جسے اس کی حرص ذلیل کی دیتی ہے۔(جامع ترمذی۔ رقم:(2579)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، لوگ اپنے ان آباواجداد پر فخر کرنے سے باز رہیں(جو زمانہ جاہلیت میں مر گئے) وہ جہنم کا کوئلہ ہیں۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گوبر کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے تکبر اور آباواجداد کے فخر کو دور کر دیا ہے۔ اب لوگ یا تو مومن متقی ہیں یا فاجر یدبخت۔ اور نسب کی حقیقت یہ ہے کہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔(جامع ترمذی۔ رقم:(4162)
حضرت ابوامامہؓ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سخت گرمی کے دن رسول اللہ بقیع غرقد کی طرف جا رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے آپ کے پیچھے چلنا شروع کر دیا۔ جب آپ کو جوتوں کی آواز سنائی دی تو آپ نے اسے محسوس کیا، چنانچہ آپ بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ لوگ آپ سے آگے نکل گئے تاکہ آپ کے دل میں ذرا سا تکبر بھی پیدا نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ۔ رقم:(245)حضرت عیاض بن حمارؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے لوگوں کو خطبہ دیا تو فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو وحی بھیجی کہ تواضع کرو، یہاں تک کہ کوئی مسلمان دوسرے پر فخر نہ کرے۔(سنن ابن ماجہ۔ رقم(4179)