فی ا لحال پاکستان کو ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں، مگر بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیوں کے بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومتی پالسیز کی وجہ سے ملک کی تمام انڈسٹریز کو تالالے لگ گئے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ دو ہزار تیئیس کے دوران پاکستان نے برآمدات اور ترسیلات زر کی مد میں پانچ ارب سے زائد ڈالر کمائے جبکہ غیر ضروری اشیاء کی درآمدات پر پابندی کے باعث حکومت کا اخراجات پر مکمل کنٹرول رہا. پاکستان کو آئی ایم ایف سمیت تمام اداروں سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے بات کرنی ہوگی۔معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی پالسیز کی وجہ سے ملک کی تمام انڈسٹریز کو تالالے لگ گئے کوئی بھی غیر ضروری اشیاء ملک میں نہیں لا سکتا۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر جس میں آٹوانڈسٹریز، ٹیکسٹائل سیکٹر مکمل طور پر تباہ حال ہو چکے ہیں۔رواں سال مارچ کے دوران برآمدات 2.4 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر بھی 2.53 ارب ڈالر کی آئیں۔ مارچ میں درآمدات 3.9 ارب ڈالر ہوئی۔ جس کی وجہ سےکرنٹ اکاؤنٹ بھی65 کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے سرپلس ہو گیا، رواں مالی سال جولائی تا مارچ تک برآمدات 21.05 ارب جبکہ درآمدات 43 ارب ڈالر کی ہوئیں، نو ماہ میں تمام امپورٹس روک کر بھی تجارتی خسارہ 22.88 ارب ڈالر پر ہے۔ترسیلات زر 20.5 ارب ڈالر کی آئیں غیر ملکی سرمایہ کاری نو ماہ میں 98 فیصد کم ہو کر صرف تین کروڑ سات لاکھ ڈالر کی رہی جو پچھلے سال تقریباً ایک اعشار پانچ ارب ڈالر سے زائد تھی۔ آٹھ ماہ کے دوران آئی ایم ایف کی ایماء پر روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 27 فیصد کا اضافہ ہوا ڈالر204 روپے سے بڑھ کر 284 روپے تک جا پہنچا۔
جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا، پٹرول اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ملک میں مہنگائی 35.5 فیصد جبکہ فوڈ انفلیشن پچاس فیصد سے اوپر پہنچ گیا۔زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب چالیس کروڑ ڈالر ہیں جو ملک کی امپورٹ کے ایک ماہ سے کیلئے بھی کم ہیں۔ عدم سیاسی حالات کی وجہ سے ملک کی معاشی حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی پاکستان کی مدد کیلئے نہیں آرہا۔معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ملک میں صرف منتخب حکومت سے ہی معاہدہ کرے گا جو اگلے تین سے چار ماہ میں ممکن نظر نہیں آرہا۔