علامہ اقبال ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے -فلسفی ، عظیم مفکر، حکیم الامت اور دور حاضر کے باکمال شاعر ہیں -ایک ایسے شاعر جو مردان حق شناس میں سے تھے جو اقوام کے عزائم وافکار میں انقلاب برپا کرنے کے لئے شعر کا سہارا لیتے ہیں ان کا پیغام ہمہ گیر انسانیت اور خاص کر ملت اسلامیہ کی نشاستہ ثانیہ سے تعلق رکھتا ہے ان کا سارا کلام ارتقاء منازل طے کرتے ہوے اپنے مقام اصل کو پہنچا جو حقائق و معارف کا ایسا گنجینہ ہے جس پر جتنا غور وفکر کیا جاے نء سے نء رائیں کھلتی جاہیں گی علامہ اقبال صرف شاعری نہ کرتے تھے بلکہ بامقصد شاعری کرتے تھے جو کہ ایک پیغام تھی وہ ایک مرد مومن کی طرح ملت کی سربلندی اور سرفرازی کے لئے پکارتے رہے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ ملت اپنے حقیقی مقصد سے آشنا ہوکر پوری انسانیت کے لئے رحمت و شفقت بن جاے چنانچہ فرماتے ہیں
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کھبی سوز ساز رومی کھبی پیچ و تاب رازی
علامہ اقبال کے تمام فکر و فلسفہ کا نچوڑ مسلمانوں کو درس خودی ہے یعنی انسان انسان کو پہچانے اور خود کو پہچانے --- یہی وجہ ہے کہ ان کا مرکزی نقطہ خودی ہے اور یہ اقبالیات کا مرکزی نقطہ اور اس کا حاصل بھی ہے - علامہ اقبال نے مخصوص ترنگ میں آکر درس خودی نہیں دیا بلکہ قرآن کا وسیع گہرائی سے عمیق مطالعہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلسفہ خودی قرآن کے ارشادات پر منبی ہے - اقبال کے ذہنی ارتقا کا مطالعہ کیا جاے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اقبال نے خودی کو دلائل سے سمجھا ، پرکھا - ان کا تصور بنیادی طور پر اسلام سے ماخوذ ہے دوسروں کو سمجھنے کے لئے شاعری اور فلسفہ دونوں سے کام لیا - مثنوی اسرار ورموز کے پہلے ایڈیشن میں جو اردو دیباچہ ہے جس کا انگریزی ترجمہ نکلسن نے کیا تھا نکلسن کے نام اقبال نے اپنے خط میں اسرارورموز کا ذکر کیا ہے اور واضح کیا کہ یہ اسلام سے ماخوذ ہے علامہ فرماتے ہیں
زندگانی ہے صدف قطرہ نیساں ہے خودی
وہ حرف کیا جو قطرے کو گہر نہ کرسکے
حیات وموت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود
اقبال خودی پر بحث کرتے ہوے مسلمان کو ایک فرد اور پھر اسے ملت اسلامیہ کے پس منظر میں دیکھا ہے - خودی کی عالمانہ تاریخ خواہ کچھ بھی ہو مگر اس کا سیدھا سادہ مفہوم خوداری اور خوداعتمادی ہے۔
خودی کا مقصد اصلی روح پر جسم کا غلبہ حاصل کرنا ہے گویا فقط زندگی خودی کا سب سے بڑا مقصد ہے - خودی کا اسلامی تصور یہ ہے کہ فرد مخلوق ہے جس کی ذات میں حکیم المطلق نے بے انتہا امکانات پوشیدہ رکھے ہیں جو سب کے سب زندگی میں ظاہر نہیں ہوے خودی کے مفہوم کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب زندگی کے تضاد و تناقض کو نہ سمجھا جاے ان حقیقتوں کو جاننا خودی کی منزل اولین ہے اس حوالے سے فرماتے ہیں
خودی کیا ہے یہ منزل اولین
مسافر یہ تیرا نشمین نہیں
تیری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
شعور ذات خودی کی اصل پہچان ہے خودی کا استحکام زندگی کا واحد معیار ہے-
خودی کے ساتھ انہوں نے بے خودی کا فلسفہ بھی پیش کیا جس کا مقصد ملت کو ہیت اجتماعیہ کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے ان کے نزدیک فرد کی کوء حقیقت نہیں جب کہ وہ افراد کی اجتماعی قوت کا روپ نہ دھار لے- گویا افراد کی اجتماعی قوت قسمت ملت کو بدل سکتی ہے اس فرد کو جو خودی سے سر شار ہے ملت کی اجتماعیت میں ضم نہ ہوجاے تواس طرح تقدیر قوم بدل سکتی ہے ایساچھوٹا سا گروہ بھی انقلاب لا سکتا ہے کہ دنیا حیرت زدہ رہ جاتی ہے طارق بن زیاد کے ساتھ مٹھی بھر افراد تھے جنہوں نے اجتماعیت کا روپ اختیار کرکے اندلس میں اسلامیوں کا پرچم گاڑ دیا تھا اور صدیوں مسلمان وہاں نعرہ انا وعجز لگاتے رہے مگر جو ملت اپنے مقام اصل سے دور ہوء اجتماعیت کے ساتھ فرد نے بھی اپنی انفرادی خودی ختم کردی تو وہاں اسلام کا کوئی نام لیوا نہ رھا طارق کے اس عزم کو اقبال اس طرح بیان کرتے ہیں
طارق چھوبہ کنارہ اندلس مفتہ موخت
گفتندکارتوبا نگاہ فرد مطااست
مگر اس مرد مومن نے کہا کہ
ہر ملک ملک ماست کے ملک خدا است
گویا افراد کی باہمی کشمکش اجتماعیت کی دوری قوموں کی موت ہے خودی کی اصل غائیت جماعت کا موثر نظم ونسق اور ربط کے بغیر ممکن نہیں ہے ملت سے وابستگی ہی ایسا ذریعہ ہے کہ جس سے خزاں رسیدہ چمن میں بہار آسکتی ہے اس حوالے سے کہتے ہیں کہ
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹا
ممکن نہیں ہری ہو سیماب بہار سے
لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں اسے برگ وبار سے
جو لقمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور
رخصت ہوے تیرے شجر سایہ دار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
افراد کے مٹنے سے اقوام نہیں مٹتی اقوام کی زندگی افراد سے زیادہ غیر محدود ہوتی ہے اسی خیال کو اقبال نے رموز خودی میں پیش کیا ہے اور یہ اسلامی تصور ہے افراد ملت کی کشمکش اقوام کے لئے موت ہے جو ملت اس راہ پر گامزن ہوجاے وہ جیتی ہوئی بازی ہار جاتی ہے۔
پروفیسر نکلسن نے جب اسرار خودی کا ترجمہ کیا اور بعض مقامات کی وضاحت چاہی تو اقبال نے خودی کی ایسی شگفتہ اور مربوط وضاحت کی جو آن کے کلام میں نظر نہیں آتی اقبال نے اپنے کلام میں خودی کو عزیز ترین متاع قدر کا معیار اور خیرو شر کی کسوٹی قرار دیا ۔
علامہ اقبال کے نزدیک عشق اللہ تعالی اور اس کے بناے ہوے ضابطے پر ایمان ہے اور خودی سے مراد اس ایمان پر عمل کرنا ہے بہترین زندگی اسی طرح بسر کی جاسکتی ہے کہ اللہ کے احکامات پر ایمان اور قرآن حکیم پر عمل ہے اس طرح انسانیت کی فلاح ممکن ہے اور اور اسی ٹھوس عمل کا نام خودی ہے۔