آج 21 ، اپریل کو مصورِ پاکستان، شاعر مشرق اور آل انڈیا مسلم لیگ کے قائد علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا 86 واں یوم وفات منایا جا رہا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو ہندو اور انگریز کے تسلط و استحصال سے نکالنے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے ایک الگ خطۂ ارضی کا تصور پیش کرنے والے علامہ اقبال اس حوالے سے اتنے پرجوش تھے کہ انہوں نے اپنے اس شعر کے ذریعے ہندو اور انگریز کی غلامی میں جکڑے عوام کو یہ مژدۂ جانفرا بھی سنا دیا کہ
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹا دو
بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اقبال کے اسی تصور کو بنیاد بنا کر قیام پاکستان کی پرامن جدوجہد کا آغاز کیا اور سات سال کے مختصر عرصہ میں اس ملکِ خداداد پاکستان کی تشکیل حقیقت کے قالب میں ڈھال دی۔ بے شک آج حکومتی اور نجی سطح پر اسی تناظر میں مختلف تقاریب کا انعقاد کر کے اقبال کے اس تصور پاکستان کو اجاگر کیا جائے گا جس کا خاکہ انہوں نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل اپنے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کیا تھا۔ ان کا یوم وفات آج اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ اسے عقیدت و احترام سے مناتے ہوئے ملک کی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ ، آئین و قانون کی حکمرانی و پاسداری اور انصاف کی عملداری کی تڑپ رکھتے ہوئے سلطانی جمہور کو کوئی آنچ نہ آنے دینے کا عزم کیا جائے۔ آج قومی سیاسی قیادتیں اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات کے علاوہ عوام بھی لاہور میں مزار اقبال پر حاضری دے کر علامہ اقبال کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کے اظہار کی رسم ادا کریں گے، قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنے اپنے پلیٹ فارم پر علامہ اقبال کیلئے خصوصی ایڈیشنوں اور پروگرامز کا اہتمام کرے گا اور سرکاری و نجی اداروں کی جانب سے خصوصی تقاریب کا اہتمام کر کے علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی و خوشحالی، سسٹم کے استحکام اور درپیش چیلنجوں سے عہدہ براء ہونے کی فکر مندی کا اظہار بھی کیا جائے گا۔ مزار اقبال پر گارڈ کی تبدیلی کی باوقار تقریب بھی منعقد ہو گی اور معمار نوائے وقت مجید نظامی مرحوم کی یاد بھی تازہ ہو گی جو اقبال کی یاد میں منعقد ہونے والی تقاریب کے روح رواں ہوا کرتے تھے تاہم آج اصل ضرورت ملک میں ایک دوسرے کے مخالف سیاستدانوں کے بھڑکائے منافرت کے شعلے سرد کرنے اور سسٹم کی بقاء کیلئے تمام قومی ، سیاسی، ادارہ جاتی قیادتوں کے باہم مل بیٹھ کر اپنے پیدا کردہ مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی ہے ۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال برصغیر کی ان جلیل القدر ہستیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس اجاگر کیا اور الگ وطن کا تصور دیا۔ انہوں نے انگریز اور ہندو کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانانِ ہند کی کسمپرسی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ خطہ ارضی کی ضرورت محسوس کی اور صرف اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کر دیا اور پھر ایک دردمند مسلم لیگی قائد کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کو جو انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے مسلمانوں کی حالتِ زار سے مایوس ہو کر مستقل طور پر لندن کوچ کر گئے تھے‘ خط لکھ کر واپس آنے اور اسلامیانِ ہند اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کیلئے قائل کیا‘ چنانچہ قائداعظم نے ہندوستان واپس آکر حضرت علامہ کی معیت اور گائیڈ لائن میں مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ متعصب ہندو بنیے کی اقتصادی غلامی سے بھی نجات دلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا‘ تاہم علامہ اقبال کی عمر عزیز نے وفا نہ کی اور وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار مملکت کیلئے 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونیوالی قرارداد لاہور سے دو سال پہلے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انکے بعد قائداعظم نے اقبال کے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کئے گئے تصورِ پاکستان کو سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسلامیانِ ہند کی پرجوش معاونت سے حقیقت کے قالب میں ڈھال دیا۔ علامہ اقبال بے شک لیڈر شناس بھی تھے‘ جنہیں مکمل ادراک ہو چکا تھا کہ محمد علی جناح کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کی منظم تحریک سے ہی ان کیلئے الگ وطن کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جبکہ اقبال بذاتِ خود برصغیر کے مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے جو اپنی قومی اور ملی شاعری کے ذریعے بھی ان کے جذبات متحرک رکھتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میسر نہ ہوتی تو ان کیلئے ایک الگ مملکت کی کبھی سوچ پیدا ہوتی نہ اسکا حصول ممکن ہوتا۔ قائداعظم خود بھی علامہ اقبال کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف تھے‘ جنہوں نے انکے انتقال پر تعزیتی بیان میں اعتراف کیا کہ ان کیلئے اقبال ایک رہنما بھی تھے‘ دوست بھی اور فلسفی بھی تھے‘ جو کسی ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے عزم میں متزلزل نہ ہوئے اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو اپنی بے لوث‘ بے پایاں اور اتحادِ ملّی کے جذبے سے معمور جدوجہد کے نتیجہ میں اسلامیانِ برصغیر کیلئے ایک الگ ارضِ وطن کا خواب حقیقت بنا دیا مگر بدقسمتی سے انکی جانشینی کے دعوے دار سیاسی قائدین سے نہ آزاد و خودمختار ملک اور مملکت کو سنبھالا جا سکا اور نہ ان سے اتحاد ملت کی کوئی تدبیر بن پائی جبکہ مسلم لیگ کے جن قائدین کو ملک خداداد کی ترقی و استحکام کی ضمانت بننا چاہیے تھا‘ انکی عاقبت نااندیشیوں سے آزاد اور خود مختار مملکت میں بھی مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر نہ ہو پائی اور نہ ہی اسلام کی نشاۃثانیہ کے حوالے سے وہ مقاصد پورے ہوئے جن کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کے الگ خطہ کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ آج کے پاکستان کا قائد و اقبال کے تصورات و فرمودات کی روشنی میں قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے جمہوریت کی عملداری اور انصاف کی سربلندی کے حوالے سے طرز عمل اور رویوں کا جائزہ لیں تو ہمیں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے آزاد و خودمختار مملکت پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے قالب میں ڈھالنے کیلئے اقبال و قائد کے ویژن کی نفی ہوتی اور جمہوریت کے استحکام پر زد پڑتی نظر آتی ہے۔
علامہ اقبال شاعر مشرق ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مفکر اسلام بھی تھے‘ وہ امت مسلمہ کا گہرا درد رکھتے تھے انکی عالمی سیاست پر بھی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد برطانیہ اور فرانس نے جب یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کیلئے جگہ دی تو انکی دور رس نگاہوں نے اس سے پیدا ہونیوالے فتنے اور عالمی فساد کو بھانپ لیا تھا۔ہم آج کا یوم اقبال ان حالات میں منا رہے ہیں کہ ایک طرف دہشت گرد اسرائیل فلسطین میں دنیا کی بدترین تاریخ رقم کر رہا ہے جبکہ غزہ میں غاصب صہیونی فورسز کی ظلم کی داستانیں رقم کرنے کا سلسلہ اب جاری ہے۔ایک اندازے کے مطابق اب تک تقریباً 35ہزار سے زائد فلسطینی اور 70 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ مگر عالمی طاقتیں جارح اسرائیل کا جنونی ہاتھ روکنے کے بجائے اسے تھپکیاں دیتی نظر آرہی ہیں جبکہ مسلم امہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ دوسری طرف اندرون ملک سیاسی عدم استحکام کی فضا اس وقت بھی طاری ہے اور ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری آج بھی عفریت بن کر عوام کو زندہ درگور کرتی نظر آرہی ہے۔ بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو اس ملک خداداد کیلئے اتحاد‘ ایمان‘ یقین محکم کی بنیاد فراہم کی تھی مگر آج ملک کی سلامتی کے حوالے سے دشمن کے درپیش چیلنجوں کے باوجود ہم قومی اتحاد و یکجہتی کی منزل سے دور ہٹتے نظر آتے ہیں اور غربت‘ مہنگائی کے ہاتھوں راندہ درگاہ ہوئے عوام اس ارضِ وطن کیلئے اقبال و قائد جیسی مسیحائی کے منتظر ہیں۔
قوم کو کسی کاز کے ساتھ منسلک کرکے ہی قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا مستحکم بنائی جا سکتی ہے مگر اسکے بجائے عوام کو سیاسی عدم استحکام کی جانب دھکیلنا ملک کی سلامتی کے درپے دشمن کو ہماری سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کیلئے نادر موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے جو پہلے ہی وادی ِکشمیر کو ہڑپ کرکے گزشتہ 1719روز سے مظلوم کشمیریوں پر ریاستی مظالم کا سلسلہ دراز کئے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں آج کا یوم اقبال اس جذبے کے ساتھ منانے کی ضرورت ہے کہ دشمن کو اسکے عزائم کے مقابل قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام جائے۔ ہماری قومی سیاسی قیادتوں کو خطے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے عہدہ برأ ہونے کی بہرصورت فکرہونی چاہیے۔
خدا ہماری آج کی حکومت بالخصوص صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کی امنگوں، آدرشوں کی روشنی میں اس وطنِ عزیز کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے قالب میں ڈھالنے کیلئے جان توڑ کوششیں کرنے اور بھارتی جارحانہ عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے کی ہمت اور توفیق عطا کرے اور وہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی عملداری کے عزم پر نہ صرف کاربند رہیں بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات بھی اٹھائیں۔ خدا ہمارا محافظ و نگہبان ہو۔
آج کا یومِ اقبال اور پاکستان کو اندرونی و بیرونی درپیش چیلنجز
Apr 21, 2024